HOME

Monday, 6 April 2020

اشعار

اشعار

واں تُو ہے زرد پوش یہاں میں ہوں زرد رنگ
واں تیرے گھر بسنت ہے یاں میرے گھر بسنت
مومن
۔
02۔
اک ہمیں خار تھے آنکھوں میں سبھی کے سو چلے
بلبلو خوش رہو اب تم گل و گلزار کے ساتھ
۔
03۔
اگر کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا
۔
04۔
اسیر کر کے ہمیں حکم دے گیا صیاد
قفس ہو تنگ تو ان کے نہ بال و پر رکھنا
۔
مہتاب علی بیگ منشیؔ
۔
05۔
اُنگلیاں اٹھے لگیں دستِ حنائی پہ ترے
رنگ لائے گا ابھی خونِ شہیداں کیا کیا
۔
جعفر علی خاں اثرؔ
۔
06۔
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
۔
آزردہؔ
۔
07۔
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی
۔میر
۔
08۔
بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
یہ اہلِ مروت ہیں تقاضا نہ کریں گے
۔
شیفتہ
۔
09۔
بلایا موت کو برسوں میں التجا کر کے
خدا کے پاس چلا ہوں خدا خدا کر کے
۔
بیخود دہلوی۔
۔
10۔
پاسِ دین کفر میں رہا ملحوظ
بت کو پوجا خدا خدا کر کے
۔سید محمد رند لکھنوی۔
۔
11۔
تڑپتی دیکھتا ہوں جب کوئی شے
اُٹھا لیتا ہوں اپنا دل سمجھ کر
امیر اللہ تسلیم لکھنوی
۔
12۔
جانا ہے سوئے وادیِ غربت بہ حالِ زار
اہلِ وطن معاف ہو میرا کہا سنا
۔
نواب علیخاں سحرؔ
۔
13۔
چمن سے دور رہا اس قدر قفس میرا
کہ پہنچی اُڑ کے نہ مجھ تک گلِ چمن کی بُو
۔
ظفر۔
۔
14۔
حسین اور طلبِ آب معاذا للہ
تمام کرتے تھے حجت سوالِ آب نہ تھا
میرانیسؔ
۔
15۔
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
۔
مرزا مظہر جانجاناں
۔
16۔
خالِ لب آفتِ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دام دانے میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
بقااللہ بقاؔ
۔
17۔
خاروں سے پوچھیئے نہ کسی گل سے پوچھئے
صدمہ چمن کے لٹنے کا بلبل سے پوچھئے
۔
انیس۔
۔
18۔
دل کے پھر زخم تازہ ہوتے ہیں
کہیں غنچہ کوئی کھلا ہوگا
۔
دردؔ۔
۔
19۔
دیوانوں سے کہدو کہ چلی بادِ بہاری
کیا اب کی برس چاک گریباں نہ کریں گے
رندؔ لکھنوی
۔
20۔
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
واجد علی شاہ اختر۔
۔
21۔
زاہد وہ بادہ کش ہوں کہ مانگوں اگر شراب
اُٹھیں ابھی شراب سے بادل بھرے ہوئے
۔
ناسخ
۔
22۔
سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
بزمِ اغیار میں گاہے سرِ راہے گاہے
جرات
۔
23۔
شمع ساں لگ اُٹھے زباں کو آگ
گر کروں سوزِ دل بیاں اپنا
۔
بہادر شاہ ظفرؔ
۔
24۔
قطرے قطرے کا ہے نصیب جدا
کوئی گوہر کوئی شراب ہوا
۔
مائل دہلوی
۔
25۔
کعبے چلتا ہوں پر اتنا تو بتا
میکدہ کوئی ہے زاہد راہ میں
اسیر لکھنوی
۔
26۔
اس رشکِ گل کے جاتے ہی بس آ گئی خزاں
ہر گل بھی ساتھ ہو کے چمن سے نکل گیا
۔
ناسخؔ
۔
27۔
گل نے ہزار رنگِ سخن وا کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں
میر۔
28۔
رونقِ محفل جو وہ رندِ شرابی ہو گیا
پھول ساغر بن گیا غنچہ شرابی ہو گیا
۔
اسیر لکھنوی۔
29۔
اس روش سے وہ چلے گلشن میں
بچھ گئے پھول صبا لوٹ گئی
امیر مینائی
۔
30۔
خاکِ چمن میں شبنم و گل کا عجب ہے رنگ
ساغر کسی سے چھوٹ پڑا ہے شراب کا
۔
جلیل مانکپوری
۔
31۔
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
۔
حافظ کرامت اللہ خاں گستاخ رامپوری۔ شاگردِ امیر مینائی
۔
32۔
کھل گیا عشقِ صنم طرزِ سُخن سے مومنؔ
اب چھپاتے ہو عبث بات بناتے کیوں ہو
مومن۔
۔
33۔
آج کل بیقرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی
منع گریہ نہ کر تو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
۔
میر
۔
34۔
ناصحو آپ میں جرات نہ رہا
اب سمجھ کر اُسے سمجھائیے گا
جرات
۔
35۔
اے دَستِ جنوں تیری مدد ہووے تو اب بھی
اک جھٹکے میں لگتا ہے گریباں ٹھکانے
مصحفی
۔
36۔
گلچیں بُرا کیا جو یہ تنکے جلا دیے
تھا آشیاں مگر ترے پھولوں سے دُور تھا
ثاقب لکھنوی
۔
37۔
بوئے گل لائی ہے تو یار کی بُو کے بدلے
اس تری چھیڑ کو ہم بادِ صبا جانتے ہیں
مجروح
۔
38۔
مارے خوشی کے مر گئے صبحِ شبِ فراق
کتنے سبک ہوئے ہیں گراں جانیوں میں
مومنؔ
۔
39۔
ٹک ہمرہانِ قافلہ سے کہہ دے اے صبا
ایسے ہی گر قدم ہیں تمہارے تو ہم رہے
سوداؔ
۔
40۔
"کہیو صبا کہ جس کو تو بٹھلا گیا تھا سو
جُوں نقشِ پا پڑا تری دیکھے ہے راہ وہ"
سوداؔ
۔
41۔
پڑے ہے بزم میں جس شخص پر نگاہ تری
وہ منہ کو پھیر کے کہتا ہے "اف پناہ تری"
جرات
۔
42۔
آج کل بیقرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی
منعِ گریہ نہ کر تو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
۔۔
میر
۔
43۔
ساقیا! یاں لگ رہا
ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
۔
خواجہ میر دردؔ
۔۔
44۔
جان کر منجملہء خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
۔
جگر مراد آبادی
۔
45۔
ناصحو! آپ میں جراتؔ نہ رہا
اب سمجھ کر اسے سمجھائیے گا
جرات
۔
46۔
نہ کچھ آشفتہ سری نے مارا
کہ مجھے چارہ گری نے مارا
مومن
۔
47۔
تھک کے بیٹھوں تو یہ کہتا ہے جنوں
دو قدم کوچہء رسوائی ہے
۔
48۔
رہ گیا چاک سے وحشت میں گریباں خالی
لے چلے خار سے ہم گوشہء داماں خالی
آتشؔ
۔
49۔
فصلِ جنوں ہے جامہ دری کی بہار ہے
ٹوٹے وہ ہاتھ جو کہ گریباں سے دور ہے
صبا لکھنوی
۔
50۔
جوشِ جنوں سے کچھ نہ چلی ضبطِ عشق کی
سو سو جگہ سے آج گریباں نکل گیا
جگرؔ
۔
51۔
میکشو! مژدہ کہ باقی نہ رہی قیدِ مکاں
آج ایک موج بہا لے گئی میخانے کو
جگر مراد آبادی
۔
52۔
گلچیں برا کیا جو یہ تنکے جلا دیے
تھا آشیاں مگر ترے پھولوں سے دور تھا
۔
ثاقبؔ لکھنوی
۔
53۔
 شاید میں درخورِ نگہِ گرم بھی نہیں
بجلی تڑپ رہی ہے مرے آشیاں سے دور
۔
فانی بد ایونی
۔
54۔
بہار ہو چکی اور شور بلبلو کا گیا
مرے دماغ سے اس گل کی ہائے بو نہ گئی
۔
جعفر علی حسرتؔ
۔
55۔
کیا صبا کوچہء دلدار سے تُو آتی ہے
مجھ کو اپنے دلِ گم گشتہ کی بُو آتی ہے
۔
داغؔ
۔
56۔
ہنس کے بولے سوالِ بوسہ پر
ایسی باتوں کا یاں جواب نہیں
مجروحؔ
۔
57۔
نقشِ پائے رفتگاں سے آ رہی ہے یہ صدا
"دو قدم میں راہ طے ہے شوقِ منزل چاہیے"
آتشؔ
۔
58۔
امیرؔ! اس ناز سے ظالم نے دیکھا
نگاہیں بول اُٹھیں "وہ لے لیا دل"
امیرؔ مینائی
۔
59۔
سنتا ہی نہیں وہ بت گمراہ کسی کی
ایسا نہ ہو سن لے کہیں اللہ کسی کی
رند لکھنوی
۔
60۔
عجیب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب اُلٹا
انشااللہ خاں انشاؔ
۔
61۔
سرخ رُو دیکھیے کس کس کو کرے گا قاتل
سر پہ باندھے ہوئے مقتل میں کفن لاکھوں ہیں
داغؔ
۔
62۔

ہاں اہلِ طلب کون سنے طعنہء نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے
۔مرزا غالب
۔
63۔
ٹاٹ کا ٹکڑا لباسِ فقر میں
قاقم و سنجاب و دیبا ہو گیا
میر وزیر صباؔ لکھنوی
۔
64۔
وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
سوداؔ دہلوی
۔
65۔
اے ولیؔ شتاب چل کے تماشے کی بات ہے
بیٹھا ہے نکل ماہتاب آفتاب میں
۔
ولی دکنی
۔
66۔
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
تو کہے جنسِ ناروا ہے عشق
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
۔میر۔
۔
67۔
ساقی ہے یک تبسمِ گل موسمِ بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
۔
سودا
۔
68۔
اے ہمصفیر! فائدہ ناحق کے شوق کا
ہم تو قفس میں آن کے خاموش ہو گئے
۔سودا دہلوی
۔
69۔
مجھ سا جہاں میں کوئی بھی آشفتہ سر نہیں
ہے یوں تو زلفِ یار بھی پر اس قدر نہیں
۔
شیخ قیام الدین قائمؔ
۔
70۔
دستِ ناصح جو مری جیب کو اس بار لگا
پھاڑوں ایسا کہ پھر اس میں نہ رہے تار لگا
۔
انعام اللہ خاں یقینؔ
۔
71۔
کیا ہوا عرش پر گیا نالہ
دل میں اس شوخ کے تو راہ نہ کی
خواجہ احسن اللہ بیانؔ
۔
72۔
بیگانگی ہے اسکی ملاقات میں ہنوز
وا حسرتا! کہ فرق ہے دن رات میں ہنوز
۔مصحفیؔ
۔
73۔
واں چشمِ فسوں ساز نے باتوں میں لگایا
دے پیچ اُدھر زُلف اُڑا لے گئی دل کو
۔
مصحفیؔ
۔
74۔
کنجِ قفس میں ہم تو رہے مصحفیؔ اسیر
فصلِ بہار باغ میں دھومیں مچا گئی
مصحفیؔ
۔
75۔
پھر چھیڑا حسنؔ نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سوچکے ہم
۔
میر حسن دہلوی
۔
76۔
گر یار مئے پلائے تو پھر کیوں نہ پیجیے
زاہد نہیں میں شیخ نہیں کچھ ولی نہیں
انشا اللہ خاں
۔
77۔
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
۔
شیخ ذوقؔ
۔
78۔
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں، اپنا
غالبؔ
۔
79۔
دیکھ کر دل کو یار کہتا ہے
چیز اچھی تھی گر نہ لگتا داغ
۔
میر مہدی مجروحؔ
۔
80۔
سنے گر طالعِ خفتہ کا قصہ
تو نیند آ جائے چشمِ پاسباں میں
۔
مجروحؔ
۔
81۔
کامل اس فرقہء زہاد سے اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
۔
آزردہؔ
۔
82۔
بزمِ مے میں بس ایک میں محروم
آپ کے اجتناب نے مارا
یادِ ایامِ وصلِ یار افسوس
دہر کے انقلاب نے مارا
جبہ سائی کا بھی نہیں مقدور
ان کی عالی جناب نے مارا
مومنؔ زبس ہیں بے شمار گناہ
غمِ روزِ حساب نے مارا
۔
مومنؔ خاں
۔
83۔
کیا جانیے آتے ہیں کہاں سے مرے شکوے
کم ہوتے ہیں ہر چند مگر کم نہیں ہوتے
بے فائدہ ہے فکر مری چارہ گروں کو
سب زخمِ جگر قابلِ مرہم نہیں ہوتے
۔
نسیم دہلوی
۔
84۔
رفعت کبھی کسی کو گوارا یہاں نہیں
جس سرزمیں کے ہم ہیں وہاں آسماں نہیں
۔
ناسخؔ
۔
85۔
قیس کا نام نہ لو ذکرِ جنوں جانے دو
دیکھ لینا مجھے تم موسمِ گل آنے دو
۔برق لکھنوی۔
86۔
اندازہء طلب سے دیا بڑھ کے جب دیا
کم حوصلہ ہمیں ہیں، وہاں کچھ کمی نہیں
برقؔ لکھنوی
87۔
اس مسیحا سے علاجِ دلِ شیدا نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا بیمار جو اچھا نہ ہوا
ماہؔ لکھنوی
۔
88۔
تو نے گلگشت جو موقوف کیا اے گلِ تر
پھول مرجھائے چلے آتے ہیں گلزاروں سے
۔
صفیرؔ بلگرامی


89۔

ناصح تری زبان ترے بس میں جب نہ ہو

انصاف کر کہ دل پہ مرا زور کیا چلے
افسوس اس نے کچھ نہ کہا سن کے حالِ دل
ہم قصہ خواں کی طرح فسانہ سنا چلے
۔شیفتہؔ
۔
90۔
مائلؔ کوئی گناہ نہ رہ جائے دیکھنا
کام آ پڑا ہے رحمتِ پروردگار سے
۔
مائلؔ دہلوی
۔
91۔
عشوہ و ناز و ادا طعن سے کہتے ہیں مجھے
ایک دل رکھتے ہو کس کس کو دیا چاہتے ہو
خیر الدین یاسؔ شاگردِ مومنؔ
۔
92۔
منفعل ضعفِ جنوں سے ہوئے ایسے کہ نہ پوچھ
طوقِ آہن جسے سمجھے تھے گریباں نکلا
غلام علی خاں وحشت شاگردِ مومنؔ
۔
93۔
خدا جانے مجھکو دکھائے گا کیا
یہ چھپ چھپ کے اپنا ادھر دیکھنا
شاہ نظامؔ رامپوری
۔
94۔
مجھے اٹھاتے ہو کہہ کر کہ ہے یہ خلوتِ خاص
وہ لوگ کون چلے آتے ہیں ادھر دیکھو
یوسف علیخاں ناظمؔ رامپوری
۔
95۔
اے رندؔ شوقِ جامہ دری پھر چمک گیا
پھر ہاتھ رفتہ رفتہ گریباں تلک گیا
رندؔ لکھنوی
۔
96۔
کبھی نظارہء چمن نہ کیا
اپنے داغوں سے باغ باغ رہے
رندؔ لکھنوی
۔
97۔
یہ منصبِ بلَند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رَسن کہاں
رشکیؔ دہلوی
۔
98۔
اس روش سے وہ چلے گلشن میں
بچھ گئے پھول صبا لوٹ گئی
۔امیر مینائی
۔
99۔
مسجد کے زیرِسایہ اِک گھر بنا لیا ہے
یہ بندہء کمینہ ہمسایہء خدا ہے
غالب
۔
100۔
سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
۔
سوداؔ دہلوی
۔
کتابیات:
1۔اردو کے اچھے اشعار مصنفہء سید محمد عسکری باقری
2۔ فرہنگِ آصفیہ
3۔ ولی سے اقبال تک مصنفہء ڈاکٹر سید عبداللہ
4۔اردو غزل مع انتخاب از ڈاکٹر یوسف حسین خاں




۔

No comments:

Post a Comment