اے ٹی ایم.
از خود زرشمار مشین یعنی اے ٹی ایم بنکوں کی دنیا کا انقلاب ہے۔ جس نے چیک بک سے لیکر ایک سے دستخط ہونے کی جھنجھٹ سے آزادی دلا دی ہے۔ سادہ طریقہ اپنائیں بنک یا کسی بھی پبلک مقام پر نصب اے ٹی ایم میں اپنا کارڈ ڈالیں، خفیہ نمبر دیں اور مطلوبہ رقم حاصل کریں۔ اے ٹی ایم کی موجودہ شکل کس طرح مکمل ہوئی اس ضمن میں چھ سات دہائیاں ماضی میں جانا پڑے گا۔ 1939ء میں لیوتھر سم جین نے اے ٹی ایم کی ایک نمونہ شکل بنائی جس کو پذیر ائی نہ مل سکی تاہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اے ٹی ایم بنانے کے سفر کی شروعات تھی۔ 1966ء میں سکاوٹ لینڈ کے جیمز گڈ فیلو نے کامیاب مشین بنا ڈالی جس میں کنزومر کو اپنا شناختی کارڈ ڈال کر مطلوبہ رقم وصول کرنے کی سہولت تھی لیکن اس آپشن کو بنکوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر1967ء میں جان شیرڈ برائون نے بریکلے بنک کی لندن برانچ میں اپنی مشین نصب کی۔ اس مختصر تاریخ میں سب سے اہم نام لیوتھر سم جین کا ہی ہے۔ وہ 28 جنوری 1905ء کو ترکی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔ 1934ء میں وہ نیویارک آ گئے اور یہاں پہلی مرتبہ کمرشل بنیادوں پر بنک ٹرانزیکشن کیلئے مشین بنائی۔ چھ ماہ کے بعد مختلف بنکوں نے تحریری طور پر لیوتھر کو آگاہ کیا کہ ان کی بنائی مشین کو عوام میں پذیرائی نہیں مل سکی لہٰذا وہ ان سے مزید مشینیںبنوانے کے خواہاں نہیں ہیں لیکن لوتھر نے ہار نہ مانی۔وہ اپنی مشین کی افادیت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا۔1939ء میں بنائی گئی اے ٹی ایم آج دنیا بھر میں ہر بنک اور اس سے زیادہ بنک کے ہر گاہک کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیوتھر وہ سائنس دان تھے جنہوںنے اے ٹی ایم مشین کے ساتھ ساتھ پہلا سلف پوریٹ کیمرہ بھی بنایا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہوائی جہازوں کے لیے فلائٹ سپیڈ انڈیکٹر بھی بنائے۔ پھر انہوں نے رنگین ایکسرے مشین بنائی اور بعد ازاں ٹیلی پرومٹر بھی بنایا۔
Useful knowledge thank you
ReplyDeleteThanks
ReplyDelete