HOME

Saturday 9 May 2020

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی


ڈیپ فیک ٹیکنالوجی
Deep Fake Technology

تحریر و تحقیق: حسن خلیل چیمہ

ٹیکنالوجی کے کتنے ہی بڑے بڑے آرٹیکل آپ نے دیکھے ہوں گے لیکن اگر آپ ٹیکنالوجی کے بارے میں تھوڑی بہت ریسرچ کرتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کیا چل رہا ہے تو کچھ ایسے ٹرمز یا الفاظ ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں بلکل بھی پتا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ آج کل Deepfake نام کا لفظ بہت مشہور ہے لیکن یہ ہوتا کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے اس کے بارے میں شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں -
ایسا بہت بار ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو بولا جاتا ہے کہ اپنی تصاویر اپلوڈ مت کرو کیونکہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ فحش مواد میں یا اڈلٹ کونٹینٹ میں جہاں آپ کے چہرے کا استعمال کر کے فحش ویڈیو بنائی جا سکتی ہیں اور آپ کو بہت آسانی سے بدنام کیا جا سکتا ہے ۔

کیا واقعی میں ایسا ہو سکتا ہے ؟ یا پھر یہ صرف بچوں کو ڈرانے کا ایک طریقہ ہے ؟

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی کا چہرہ لے کر کسی کے جسم پر لگا دیا جاتا ہے اور جی ہاں ایسا بلکل ہوتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدر سے ایسا بلکل ہو سکتا ہے ۔ ڈیپ فیک کا لفظ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ڈیپ لرنگ پروگرام سے لیا گیا ہے جس سے مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی کو کہ پوری طرح سے نقلی ہو لیکن انتی ڈیپ ہو کے پہچانا نا جا سکے ۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کسی تصویر سے لیا ہوا چہرا کسی ویڈیو میں موجود شخص کے جسم پہ لگایا جا سکتا ہے اور پھر اس کے چہرے کے تاثرات کو مشین لرنگ کے ذریعے سے کنٹرول کر کے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے ۔
اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے آج بہت سی فیک ویڈیوز بھی بنائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے فیسبک 10 ملین ڈالر کا انعام دینے کو تیار ہے اس شخص کو جو ان نقلی ویڈیو کی پہچان کے لئے کوئی ایسا سافٹویئر یا الگورتھم بنا دے جو انہیں نقلی ویڈیوز کا پتا چلا سکے کہ وہ ڈیپ فیک ویڈیو ہے یا ارجینل مواد ہے کیونکہ آج کل ایسی بہت سی ویڈیوز اپلوڈ کی جا رہی ہیں جس میں چہرہ اور آواز کسی اور کی ہوتی ہے اور جسم کسی اور کی ۔ جن کا پتا بھی لگایا جا سکتا ہے لیکن ایک عام آدمی کے لئے یہ بلکل ناممکن بات ہے ۔

اس میں جو چیز یا ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے اسے جنریٹو اڈورسیریل نٹورک Generative adverserial network کہا جاتا ہے ! جسے مختصر GAN بولا جاتا ہے
اس کا استعمال کر کے آپ کسی انسان کے چہرے کے تاثرات تک کی نقل تیار کر سکتے ہیں اور جیسے بلکل بھی نہیں پکڑا جا سکتا کیونکہ یہ کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس چاہے جتنی جدید ہو چکی ہو وہ ایسے بنا تو سکتی ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی توڑ نہیں تلاش کیا جا سکتا ۔ اسی لئے فیسبک اور مائکروسافٹ مل کے کوئی ایسا سسٹم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس چیز کا پتا چلا سکے کہ ویڈیو اصلی ہے یا نقلی تاکہ اس کی روک تھام کی جا سکے اور اپلوڈنگ سے پہلے ہی خارج کر دیا جائے ۔

اب بات کریں اس کے استعمال کی تو کوئی عام بندہ یہ کام بلکل بھی نہیں کر سکتا بلکہ ویڈیو میں موجود انسان کو نیا چہرہ ایک ایسا انسان ہی دے سکتا ہے جو آرٹیفشل انٹیلیجنس کے استعمال کے بارے میں جانتا ہو ۔

کچھ عرصہ پہلے face app نامی ایک ایپ اس چیز کا ایک سادہ سا نمونیہ تھی لیکن یہ ٹیکنالوجی اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ کیونکہ مشینز سمجھ چکی ہیں کہ انسان کیسے برتاو کرتا ہے !
آج کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے امید کرتا ہوں کہ آپ میری بات کو سمجھ گئے ہوں گے ۔
اپنا قیمتی وقت دینے کا شکریہ ۔ 

No comments:

Post a Comment