HOME

Friday 22 May 2020

ای سی جی کیا ہے ؟


ای سی جی کیا ہے ؟

آج کے ترقی یافتہ دور میں دنیا کے تقریبا ہر اسپتال کے علاوہ ایک عام ڈاکٹر کے پاس بھی جدید ترین مشینیں موجود ہیں جن سے فوری ٹیسٹ یا بیماری کی تشخیص کے بعد پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ مریض کی موجودہ تکلیف کے سبب کون سا طبی لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ وہ شفایاب ہوجائے۔
کئی جدید مشینوں میں ایک مشین ای سی جی بھی شامل ہے جیسے الیکٹرو کارڈیو گرافی کہا جاتاہے۔ بذریعہ الیکٹریکل انسٹرومنٹس کی اور عوامل سے دل کے پٹھوں کے کی جانچ اور تحقیق کرنے میں یہ مشین ڈاکٹر کے لیے ممکنہ آسانی پیدا کرتی ہے جس سے ڈاکٹر فوری نتائج حاصل کرتے ہیں ۔
اس مشین کے ذریعے دل کی پھٹوں کی حرکات و سکنات دھڑکن کے کنٹرول اور کنٹرکشن سے پتہ لگایا جاتا ہے اور مخصوص طرز عمل سے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں ۔مثال کے طورپر دل کی ہردھڑکن کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا دھڑکن کی تبدیلی اور دل کی حرکات کو کنٹرول کیا جاتا ہے، طبی زبان میں ایسا کہا جاتا ہے، کہ ای سی جی وہ مشین ہے جوبرقی پاور سے بہت کمزور سگنل کو بھی نہایت بریک بینی سے سرچ کرنے کے بعد مانیٹر پر پیش کرتی ہے یا ٹیسٹ اور رپورٹ کو فوری پرنٹ آؤٹ بھی کیا جا سکتا ہے جس سے ڈاکٹر اور مریض واضح طور پر نتائج دیکھ سکیں۔
1882ء میں برطانوی فزیولوجسٹ ایکسٹس ویلر نے اسے ایجاد کرنے کے بعد پہلا تجربہ اپنے جمی نامی کتے پر کیا جس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ۔بیسویں صدی کے آغاز میں ڈچ ویلیم آئینٹ ہوون نے نئی تحقیق وٹیکنالوجی سے اس مشین کو مزید بہتر بنایا اور پہلی بار انسانوں پر استعمال کیا ۔اس دور میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ تھیوری کے اعداد و شمار کے مطابق بذریعہ مشین کے دل کی دھڑکن پڑھنے کے قابل تھی اور اس انقلابی ایجاد اور کامیابی پر ویلیم کو انیس سو چوبیس میں میڈیسن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔
آج تقریبا ایک صدی کے طویل عرصے بعد بھی طبی پریکٹس میں ای سی جی ناگزیر بن گئی ہے، ڈاکٹر ز برقی سسٹم سے دل کو مختلف اینگل اور طبی لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں مکمل معائنہ کے بعد اہم معلومات حاصل کرتے ہیں اور مریض کو تمام جسمانی فنکشن سے اطلاعات فراہم کرتے ہیں بدیگر الفاظ ڈاکٹرز کے لئے اتنا جان لینا ہی کافی ہوتا ہے کہ دل کے کس حصے میں کونسی بیماری ہے دل اور دھڑکن کا ریدھم کیسا ہے، دل کی پٹھوں میں انفیکشن تو نہیں یا دل کا دورہ پڑنے کےکتنے امکانات ہیں وغیرہ ای سی جی کے استعمال کا طریقہ بہت سادہ ہے یہ مشین جسمانی سسٹم کی سرگرمیوں کو مفصل طریقے سے کنٹرول کرنے دل کے نظام اور خون کی سرکولیشن کے کنٹرول اور شریانوں کو پمپ کرنے کے وقت استعمال کی جاتی ہے ۔
ان تمام سے ڈاکٹر کو بتدریج جانکاری ہوتی رہتی ہے اور بروقت بیماری کا علاج کیا جاتا ہے۔
اس نظام کے تحت ہڈیوں پھٹوں کے خلیات کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے اور دل کی دھڑکن کی فریکوئنسی کو کنٹرول کیا جاتا ہے جیسے طبی زبان میں پیس میکر کہا جاتا ہے۔اس عمل سے تعین کیا جاسکتا ہے کہ دل کے پٹھوں کے خلیات میں بذریعہ پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضاء سے صحت کے نظام میں کہاں تبدیلی واقع ہورہی ہے ۔ان تمام مراحل کے دوران برقی توانائی کی وولٹیج میں پیش رفت ہونے کے سبب تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جنھیں جسم کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے اتار چڑھاؤ کے ذریعے مسلسل گرفت میں رکھنا لازم ہوتا ہے، دوران ٹیسٹ ای سی جی بدستور سگنل ریکارڈ کرتی رہتی ہے جو ڈاکٹر کی نظر میں رہتا ہے اور دل کے ایکشن یا ری ایکشن کی صورت میں خوبی یا خامی سے آگاہی ہوتی ہے ۔
ہر الیکٹرو کارڈیو گرافی سے قابل مریض پوچھا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی دوائی استعمال کرتا ہے یا کسی بیماری میں مبتلا تو نہیں کیونکہ دونوں صورتحال میں ٹیسٹ رپورٹ کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں مریض کو دورانِ ٹیسٹ بیڈ پر لٹا دیا جاتا ہے اور جسم کے مختلف حصوں میں دس الیکٹر وڈ منسلک کیے جاتے ہیں دونوں بازوؤں اور ٹانگوں کے علاوہ چھ الیکٹروڈ ،سینے پر ایک مخصوص جیل کے ذریعے چپکائے جاتے ہیں ۔تاکہ جلد سے رابطے میں رہیں بعد از ٹیسٹ چند منٹ بعد ما نیٹریا پرنٹر تمام رپورٹ ڈاکٹر تک پہنچادیتے ہیں جس کا مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر مریض کو علاج کا مشورہ دیتے ہیں ۔ای سی جی کے استعمال عام طور پر دل کی دھڑکن کی سست روی پوٹاشیم کی کمی کے باعث الیکٹرولائٹ میں رکاوٹ دل پر ضرورت سے زیادہ بوجھ منشیات کا زیادہ استعمال پھیپھڑوں کی بیماری آپریشن سے قبل کے علاوہ روٹین چیک اب میں الیکٹرو کارڈیو گرافی کی جاتی ہے ۔
ای سی جی کی کئی قسم کی کٹیگریز ہوتی ہیں ان تمام گریز سے انسانی جسم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ کسی قسم کی ضمنی اثرات ظاہر ہوتے ہیں لیکن کئی سیریس معاملات میں ڈاکٹر اور اسپتال کا عملہ دوران ٹیسٹ مریض کی نگرانی کرتے ہیں مثلاً اگر مریض کو چکرآئیں چھاتی میں تکلیف ہو یا سانس لینے میں دشواری ہو تو فوری طور پر ٹیسٹ سسٹم کو بند کردیا جاتا ہے ۔


No comments:

Post a Comment