HOME

Sunday, 10 May 2020

اہرام مصر


۔اہرام مصر

جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئ ہے اس میں بہت سے اسرار ایسے ہیں جو انسانی عقل کی سمجھ میں نہیں آتے .اگرچہ آج سائنس بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے مگر پھر بھی بہت سی چیزوں کے راز آج بھی سربستہ ہیں .اور جب کوی چیز انسانی دماغ کی سمجھ میں نہیں آتی تو اس کو عجوبے کا نام دے دیا دیا جاتا ہے .ویسے تو ان عجایب کی تعداد ٧ ہیں جن کو عجایب عالم کا نام دیا گیا ہے مگر ابھی یہاں ان میں سے صرف ایک عجوبے جس کو احرام مصر کہا جاتا ہے کا ذکر کرنا پسند کروں گا .احرام مصر دراصل ان مخروطی مقبروں کو کہا  جاتا ہے جو مصر کے فرعوں اپنے لئے تعمیر کرواتے تھے تا کہ مرنے کے بعد وہاں انکی لاش کی ممی کو محفوظ کیا جا سکے .اگر اپ کو کبھی ان احرام کی سیاحت کا موقع میسر آیا ہو تو ان بلند و بالا عمارتوں کی قدامت،طرز تعمیر اور پراسراریت نے آپ کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہوں گے .صدیوں سے یہ مقبرے مصر کی سرزمین پر زمانے کے آلام و حوادث کا مقابلہ کرتے هوئے سر اٹھاے زمانہ قدیم کے انسان کی محنت اور تخلیقی قوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں .یہ ان بادشاہوں کی آرام گاہیں ہیں جو خود کو خدا کہلوانے کے شوقین تھے .آج ان بادشاہوں کی ممیاں عجایب گھروں میں منتقل کی جا چکی ہیں مگر ان کے خالی مقبرے آج بھی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں.اس دنیا میں موجود ہر چیز فانی ہے ماسواۓ تاریخ اور علم کے .ان عمارات کو دیکھ کے یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کے آج سے صدیوں پہلے جب وسائل بھی محدود تھے یہ احرام کیسے تعمیر کیے گئے .؟
قریبا ٤٧٠٠ سال پہلے تعمیر کیے گیۓ ان احرام پر کی گئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئ ہے کے ان کی تعمیر میں علم ریاضی کے اصولوں کا پورا پورا دھیان رکھا گیا ہے .٢٦١٢ ق م سے لے کر ٢٥٨٩ ق م تک فرونسوفرو مصر کا حکمران تھا .اس کے عہد حکومت میں ہموار ڈھلوان والے احرام کی تعمیر کا کم شروع ہوا .اس کے تعمیر کردہ حرم کو سرخ حرم بھی کہا جاتا ہے .مگر سب سے بڑا حرم جس کو ٤٣ صدیوں تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل رہا وہ فرونسو فرو کے بیٹے خوفو نے تعمیر کروایا تھا .خوفو نے ٢٥٨٩ ق م سے ٢٥٦٦ ق م تک مصر کے حکمرانی کی تھی .اس سب سے بڑے حرم کی اونچائی تعمیر کے وقت ٤٨١ فٹ تھی جو بعد میں زمانے کی گردشوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ ٣٠ فٹ کم ہو گئ .اس حرم کی بنیاد مربع شکل پر رکھی گئ ہے جس کی ہر جانب لمبائی ٧٥١ فٹ ہے اور اس بات پر ماہرین آج تک ورطہ حیرت میں متبلا ہیں کے اس زمانے میں جب سائنس کے آلات بھی نہیں تھے معماروں نے کیسے ایسی عمارت تعمیر کی جس کی پیمایش میں معمولی سا فرق بھی نہیں ہے 
 مقبرے کی تعمیر میں ٢٠ لاکھ سے زیادہ پتھر کے بلاک استعمال ہوۓ ہیں جن میں ہر بلاک کا وژن ٢ ٹن سے زیادہ ہے .حرم کی شمالی جناب اس میں داخل ہونے کا دروازہ ہے .اندر بہت سی راہداریاں اور کمرے ہیں .اور مرکز میں وہ کمرہ ہے جس کو بادشاہ کا کمرہ کہا جاتا ہے اس میں سرخ پتھر کا چبوترہ ہے .ان مقابر کے اندر کے راستے انتہائی پیچیدہ ہیں کیونکہ یہاں بادشاہ کی ممی کے ساتھ قیمتی خزانہ بھی دفن کیا جاتا تھا اور اس خزانے کو چوروں اور نقب زنوں سے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے پیچیدہ راستے بناۓ جاتے تھے  

ان اہراموں کی تعمیر کے متعلق کئی روایات منسوب کی جاتی ہیں .یہ کہا جاتا ہے کے یہ کام انسانی ہاتھوں کے بس کا ہرگز نہیں یہ جنّات یا کسی اور غیبی مخلوق کے کارستانی ہے جبکہ تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان کو بادشاہ کے حکم پر غلاموں نے بنایا .ڈاکٹر شعیب جو کے ایک مصری اسکالر ہیں ان کا کہنا ہے کے احرام تعمیر کرنے والے ٥ ہزار سال قبل کے مصر کے باشندے تھے .تاریخ سے یہ بھی پتا لگتا ہے کے ان مقابر کی تعمیر ٢٠ برسوں پر پھیلی ہوئی ہے .شام کے دھندلکے میں جب سورج کی کرنیں ان فلک بوس عمارتوں سے ٹکراتی ہیں تو ایک ایسا جادوئی منظر تخلیق ہوتا ہے جو کہ محو نظارہ لوگوں کو مبہوت کر دیتا ہے اور تب بے اختیار ذہن میں خیال آتا ہے کے بادشاہوں کے لئے مقبرے بنانے والے خود بھی تو اپنے فن کے بادشاہ ہی تھے

No comments:

Post a Comment