HOME

Saturday, 16 May 2020

Hony Bee




شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیز خصوصیات

شہد کی مکھی کی کہانی بڑی ہی دلچسپ، فکر انگیز اور حیرت خیز ہے، شہد کے ایک عام چھتے میں کم و بیش ساٹھ ہزار مکھیاں ہوتی ہیں، جن میں سے فقط ا یک مکمل اشوی (Female) خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ یعنی صرف ایک مکھی (پوری مادہ) ہوتی ہے اس کو ملکہ یا رانی کہا جاتاہے۔ یہ پورے چھتے کی ماں ہوتی ہے اور چھتے میں وہی حیثیت رکھتی ہے جو بدن میں روح کو حاصل ہے۔ یہ عام مکھیوں سے قدرے لمبی ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف انڈے دینا ہے۔ چار یا پانچ سو کے لگ بھگ نر ہوتے ہیں جو Drones کہلاتے ہیں۔ یہ مکمل طور پرنکھٹو ہوتے ہیں اور باقی ہزاروں مکھیاں ورکر یعنی کارکن مکھیاں کہلاتی ہیں۔ یہ جنس کے اعتبار سے نامکمل مادہ (Undeveloped females) ہوتی ہیں کیونکہ ان کی بیضہ دانیاں نا تمام ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ انڈے دینے کے لائق نہیں ہوتیں۔ باقی تمام جبلتوں (Instincts) میں وہ مونث ہوتی ہیں۔ چھتے کا سارا کام یہی کرتی ہیں اور اس قدر شدید اور ان تھک محنت کرتی ہیں کہ چند ہفتوں سے زیادہ ان کی زندگی دشوار ہوتی ہے۔ یہ کم سے کم کھاتی ہیں اور بغیر دم لیے، باریاں بانٹ بانٹ کر چھتے کے انتظامات میں ہمہ تن مصروف رہتی ہیں۔ کچھ مکھیاں رانی کی داسیاں ہوتی ہیں اور جو ہمہ وقت اس کے ناز اٹھانے، اس کو کنگھی چوٹی سے درست رکھنے اور اس کے فضلات کوصاف کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو چھتے میں بیضہ خانے بنانے میں لگی رہتی ہیں تاکہ رانی ہر قدم پر نئے خانے میں انڈا دے سکے اور ہر روز ہزاروں کی تعداد میں انڈے دے تاکہ جوں جوں کارکن اٹھتے جائیں ،نئے کارکن ان کی جگہ لینے کو مستعد ہوں اور زندگی کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے چنانچہ ہر چھتے کا ہر کارکن رانی پر اپنی جان چھڑکتا ہے اور کیوں نہ ہو، وہ ان کے مسلقبل کی واحد علامت ہے۔ چھتے کے اندر کثر ازدحام سے بے حد گرمی ہوجاتی ہے۔ کچھ کارکن مکھیاں مل جل کر اپنے پروں کو مسلسل جنبش میں رکھتی ہیں تاکہ ہوا کو گردش دے کر درجہ حرارت کو قابل برداشت بنایاجاسکے۔ وہ اتنی تیزی سے ہوا کو باہر پھینکتی ہیں کہ اگر ایک جلتی ہوئی شمع کو سامنے لایا جائے تو بجھ جائے۔ جب کوئی مکھی تھک کر اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو دوسری جھٹ اس کی جگہ لے لیتی ہے اور ایئرکنڈیشننگ کے اس عمل کوجاری رکھتی ہے۔ موسم سرما میں حرارت بہم پہنچانے کے لیے بھی اسی نوعیت کا عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ کچھ مکھیاں’’ آیائوں ‘‘کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ یعنی ملکہ کے دیئے ہوئے انڈوں کو مع غذا کے خانوں میں بند کردیتی ہیں حتیٰ کہ بچے نکل آتے ہیں۔ پھر یہ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ان کو غذا پہنچاتی ہیں تاکہ آنکہ وہ خود چھتے کے بالغ و عاقل افراد بن جاتے ہیں۔ یہ امر بھی بڑا دلچسپ ہے کہ ہر انڈے میں نر، مادہ یا کارکن بننے کی صلاحیت ہوتی ہے البتہ وہ خانے جن میں یہ انڈے پروان چڑھتے ہیں مختلف انداز کے ہوتے ہیں اور ہر قسم کے خانوں کے لیے خوراک بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ جو انڈا کارکن بیضہ خانے میں پرورش پا رہا ہے وہی اگر نر کے خانے میں ہوتا تو قبیلے میں ایک نکھٹو کا اضافہ ہوتا اور اگر شاہی بیضہ خانے کی زینت بنتا تو رانی کی صورت میں برآمد ہوتا۔ گویا چھتے کی ماں اپنی اولاد کو خام مال عطا کرتی ہے جس کو مدبر ذہن سوچ سمجھ کر کھپاتے ہیں اور مختلف احوال کے تحت مختلف منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ تو چھتے کی داخلی گہما گہمی تھی، اب ذرا برون خانہ بھی چلیے۔ شہر کے دروازوں پر باقاعدہ سنتری مقرر ہیں یعنی کچھ کارکن مکھیاں چھتے کے منہ پر پاسبانی کرتی ہیں اور کسی غیر مکھی کو اندر نہیں آنے دیتیں کیونکہ انسانی معاشرے کی مانند مکھیوں کے معاشرے میں بھی اچھے چور اچکے سبھی پائے جاتے ہیں۔ بعض چھتوں کی اخلاقی حالت پست ہوتی ہے چنانچہ یہ لوگ خود محنت کرکے شہد بنانے کے بجائے دوسرے چھتوں میں نقب زنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر چھتے کے پاسبان ان مجرموں کو مار بھگانے یا ڈس کر جان سے مار ڈالنے کے لیے مستعدرہتے ہیں۔ چوراچکوں کے ساتھ ساتھ کچھ بھولے بھالے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو پھولوں، پھلوں کے رس سے لدے پھندے آتے ہیں مگر بھول کر دوسروں کے گھر جا نکلتے ہیں۔ اس صورت میں چھتے کے سنتری کمال خود غرضی کا ثبوت دیتے ہیں یعنی ایسے ’’بھولے بھالے کارکن‘‘ کو اندر آنے دیا جاتاہے تاکہ وہ اپنی کمائی ان کارکنوں کے سپرد کردیں جو چھتے کے اندر ذخیرہ سازی میں مصروف ہیں اور موم کی ڈاٹیں لگا لگا کر بقول غالب انگبیں کے سربمہر گلاس‘‘ تیار کررہے ہیں جو زمستان کے سناٹے میں کام آئیگا۔ جب پھول مرجھا چکے ہوں گے اور فضا کی یخ بستگی کارکنوں کے پرِ پرواز کوشل کر دے گی۔ چھتے کے باقی ہزاروں کارکن اڑ کر چمن چمن پھرتے ہیں اوربعض اوقات دو دو تین تین میل تک کی اڑاان کرتے ہیں اور پھلوں اور پھولوں پر گرتے ہیں۔ پھولوں کی زیریں نلی میں رب العالمین نے ان کے لیے مٹھاس اورامرت رس کا ذخیرہ رکھا ہے جس میں یہ مکھیاں اپنی سوئی جیسی ننھی منی خرطوم کو داخل کر دیتی ہیں اوررس کو اپنے’’ شہد کے پوٹے‘‘) Honey Stomach )میں بھر لیتی ہیں جس کو دوبارہ اگل کر شہد بنا لیں گی۔ 
(ڈاکٹر خورشید رضوی کے مجموعہ مضامین’’اطراف‘‘ سے انتخاب)
بشکریہ روزنامہ دنیا

No comments:

Post a Comment