سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس
ڈاکٹر ذاکر خان
تغیّرِ حیات جب لمحوں سے تیز تر ہوجائے تب انسانی زندگی پر اِس کے بے شمار اثرات ظاہرہونے لگتے ہیں۔ یہ اثرات سماجی بھی ہوسکتے ہیں، سیاسی ،معاشی اور معاشرتی بھی۔ یوں بھی اکیسویں صدی کو تبدیلیوں کی صدی کہا جاتا ہے جس نے ہمارے ہاتھوں سے ماضی کی میراث چھین کر ہمارے گلے میں نیٹ ورک کا طوق ڈال دیا ہے۔ہوا یوںکہ ٹیکنالوجی اور نیٹ ورک کے اختلاط سے ایک نئی چیز وجود میں آئی جسے انٹر نیٹ کہا جاتا ہے۔عدم سے وجود میں آتے ہی انٹرنیٹ نے اپنے ہاتھ پیر پسارنے شروع کردیے نتیجتاًبے شمار شوشل نیٹ ورکنگ سائٹس مزاجِ عاشقانہ اور ادائے دلربانہ لیے ہماری زندگی کے شب و روز میں اسطرح داخل ہو گئیں کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہ ہوا۔پچھلی ایک دہائی میں اِس شعبہ میں بے انتہا ترقی ہوئی اور اب یہ تمام سائٹس نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن کر انہیں اپنے دامِ فریب میں گرفتار کرچکی ہیں۔ہمیں ہوش توآیالیکن قدرے تاخیرسے یا یوں کہیے کہ سانپ نکل جانے کے بعد، اب لاٹھی پیٹنا چہ معنی دارد۔لیکن ہم اتنا ضرور بتا سکتے ہیں کہ کس دلکش و خوبرو بلا کو شوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کہا جاتا ہے۔
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس یعنی ایسی تما م سائٹس جو وقت کا زیاں بھی ہوں اور اپنے استعمال کرنے والوں کو اوروں سے جوڑنے کا ذریعہ بھی۔لیکن اکثر یہاں بے جوڑ بھی جُڑنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً دہلی جیسے واقعات پنپتے ہیںاور ملک کا سر شرم سے جھک جاتاہے مگر ہمارے رہنمایانِ ملک وملّت کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔مادّہ پرستی کے چڑھتے سورج کو سلام کے مصداق اس سماج میں بے شمار سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی افزائشِ نسل میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی صرف گوگل(GOOGLE)اور یاہو(YAHOO)سرچ انجن ہوا کرتے تھے مگر آج ہم ٹوئیٹر(Twitter)اور فیس بُک(Facebook)سے بھی ہم کلام ہیں۔حیرت بھی نقطۂ عروج پر اُس وقت پہنچ جاتی جبOrkut پر پسند کیا جاتا ہے linked in پر شادی کے پیغام بھیجے جاتے ہیںblogsterپر خوشیاں منائی جاتی ہیں اور my spaceپر تعزیت کی جاتی ہے۔flickerپرہم بچھڑتے ہیں اورclassmatesپر مل بھی جاتے ہیں۔کبھی موت کی خبریں تار سے دی جاتی تھیں مگر آج ٹوئیٹر پر بلاگ لکھ کر موت سے پہلے ہی تعزیت کردی جاتی ہے۔ مجال ہے آپ جو تعزیت میں ہمارے نیتائوں سے بازی ما رلے جائیں۔ نیتا تو پھر نیتا ہی ہیں چاہے وہ شوشہ گر ہوں یا صفر۔ یہ وقت سے پہلے تعزیت بھی کرلیتے ہیں اور غلطی کا احساس ہونے پر معذرت بھی ۔
Flickr,classmates,Blogster,Facebook,hi5,Linked In,My space,Orkut,Twitter اور اِس طرح کی بے شمار سائٹس نے ہمیں اپنا بے دام غلام بنا لیا ہے ۔آج طلبہ مادرِعلمی میں کم اور سائبر کیفوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔کبھی کبھی تو والدین اِن ہی SNSپر پیغام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ” میرے لال گھر آجائو کھانے کا وقت ہوگیا ہے۔”آج سماج اور معاشرے میں اِن تمام سائٹس نے نشے کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ نشہ بھی ایسا جو منشیات کی طرح چھپ چھپا کر نہیں بلکہ کھلے عام کیا جا رہا ہے۔ اس کے نشے کے شکار صارفین عموماً اس کی علامات سے بے خبر ہیں۔اپنے علاج کی طرف توجہ دینے کی بجائے وہ اپنے آپ کو نارمل قرار دیتے ہیں ۔اِن کی اپنی دنیا ہی اِن کی اپنی جنّت ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ جنّتیں احمقوں کے لیے بھی مخصوص ہوتی ہیں۔منشیات کے عادی اور شوشل سائٹس کے دلدادہ،ان دونوں قسم کے افراد میں بے شمار قدریں مشترک ہوتی ہیں۔نہ اُنہیں وقت کا احساس ہوتا ہے نہ اِنہیں۔ ذمّہ داریوں سے فرار وہاں بھی ہے اور یہاں بھی۔عزیز و اقارب کے لیے تنگئیِ وقت کا عذرِ لنگ وہ بھی کرتے ہیں اور یہ بھی۔اُن کا نشہ بھی باعثِ شرمندگی ہے اور اِن کا نشہ بھی۔نشہ اُن افراد کے لیے بھی جذبات کی تسکین کا سامان ہے اور اِن لوگوں کے لیے بھی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ۔اس نشے کے نہ ملنے پر دونوں قسم کے افراد بے چینی اور ہیجان کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر سماج اِس ترقی یافتہ دور میں بھی پتھروں کے اُس دور کی یاد تازہ کردیتا ہے جہاں انسانی زندگیاں کوڑیوں کے مول بکا کرتی تھیں۔
اِن سائٹس کو استعمال کرنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس کا ایک سائٹ پر ایک ہی اکائونٹ ہو۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ دو دو اکائونٹ بنائے جاتے ہیں ایک originalاور دوسراfakeایک تو برائے نام ہوتااور دوسرا معشوقہ کے لیے وقف یا تلاشِ محبوبہ کا ذریعہ۔ fake accountتو ہر حال میں fakeہی ہوتا ہے۔یہاں نہ بھائی بہن کا رشتہ ہے نہ ماں بیٹے اور نہ ہی پاپ بیٹی کابس ایک حمام ہیں اور سب ننگے ہیں۔اب کون کتنا ننگا ہے اس بات کا پتہ تو اُس وقت چلتا ہے جب ویب کیم webcamآن ہوتا ہے اور پھر شرم سے گردن یوں جھکتی ہے مانو ریڑھ کی ہڈی ہی نہ ہو۔
عزّت کی خوشبو پھیلنے میں زندگیاں درکار ہوتی ہیں مگرذلّت لمحوں میں میلوں کا سفر طے کرلیتی ہے ۔اِ س معاملے میں بھی یہی ہوا۔ہر خاص و عام میںاِن تمام سائٹس کے مقبول ہونے کے بیشمار اسباب ہیں۔یہاں بھی نشے والی تھیوری کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اوّل اوّل مفت میں خدمات دستیاب کروائی جاتی ہیں۔اس کے استعمال کو آسان بنایا جاتا ہے۔چھوٹے چھوٹے موبائل فون سے لیکر کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ تک اِس سے ہم آہنگ کردیے جاتے ہیںاور جب نوجوان اِس کا عادی ہوجائے تب یہ محبوبہ شانِ بے نیازی کا اظہار کرنے لگتی ہے اور عاشقِ نامراداپنی محبوبہ کو خوش کرنے کے چکر میں خون پسینے کی کمائی ون جی سے لیکر فور جی تک پانی کی طرح بہانے لگتا ہے۔
ہر سکّے کے دو رخ ہوتے ہیں ہر بات کے دو پہلو ہوتے اور وہ مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔یہ تمام سائٹس جہاں فحاشی ، عریانیت اور بے راہ روی کو پروان چڑھاتی ہیںوہیں کاروباری تشہیر کے لیے انتہائی زرخیز گردانی جاتی ہیں۔ یقیناًیہ تمام سائٹس روپیوں ،پیسوں کی بربادی اور اصراف کا ذریعہ ہیں لیکن یہی سائٹس آپ کے کاروبار کو مفت یا انتہائی کم خرچ پر منٹوں میں ساری دنیا میں متعارف کرا سکتی ہیں۔یہ سائٹس اگر مغلّظات کا ذریعہ ہیں تو مواصلات کا وسیلہ بھی۔جہاں یہ سائٹس لوگوں کو راہِ راست سے ہٹاتی ہیں وہیں بھٹکوں کو راستہ بھی دکھلاتی ہیں۔بچھڑوں کو ملاتی بھی ہیں۔پھر چاہے وہ کمبھ کے میلے میں بچھڑے ہوں یا تقسیمِ وطن میں۔ اگر ایک طرف یہ سماج کے بگاڑ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف انقلاب کا ایک پیغام بھی ۔مجھے یقین ہے آپ مصر کے حالات ابھی بھُولے نہیں ہونگے ،جہاں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے facebookسے دئیے گئے پیغام نے مصر کے برسوں پرانے تخت کو تاراج کردیا۔ ایک مراٹھا لیڈر کی موت کے بعد facebookسے اٹھنے والا تنازعہ بھی آپ کو یاد ہی ہوگا جس نے متعصب عدلیہ اور افسرِشاہی کی چولیں ہلا دیں اور انھیں یہ مان لینے پر مجبور ہونا پڑا کہ دستورِہند نے ہمیں بھی اظہاروبیان کی آزادی دی ہے۔اور بِلا امتیاز اپنی رائے رکھنے اور پسند و ناپسند کا حق دیا ہے۔یہ سچ ہے کہ یہ سائٹس غلط استعمال کی بناء پر بے شمار دخترانِ ملک وملّت کی بربادی اور آبروریزی کی ذمہ دار ہیںلیکن ان ہی سائٹس نے سیکڑوںکے گھر بھی بسائے ہیں ۔ہزاروں کی امیدیں پوری کی ہیں لاکھوں کو شادی شدہ زندگی کا سکھ بھی دیا ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں hackersہئکرس آپ کی خوشیاں تک چھین لینے کے درپے ہیں لیکن ان ہی سائٹس پرایسے ادارے بھی ہیں جو سخاوت اور فیاضی میں اپنی مثال آپ ہیں۔یہ سائٹس صرف حواس چھینے کا ذریعہ ہی نہیں اچھے کاموں کی ترغیب دینے کا وسیلہ بھی ہے۔ اِن سائٹس پر امڈتا ہوا فحاشی اور عریانیت کا سیلِ رواں ہونے کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہیں جو قندیلِ حرم جلا کر بے راہ رئوں کی رہبری کر رہے ہیں۔کفر اور ظلمت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایمان و یقین کی مشعلیں جلائے ہوئے ہیں۔ضمیر فروشی اور ابن الوقتی کے دور میں ہمدردی اور ایثار کا پیکر بنے ہوئے ہیں۔
انسانی زندگی روزِ ازل سے ہی تضاد کا شکار رہی ہے۔یہاں ہابیل بھی ہے اور قابیل بھی، کرامن بھی اور کاتبین بھی، منکر بھی ہیں اور نکیر بھی، خوشیاں بھی ہیں اور غم بھی، خوشحالی بھی ہے اور بدحالی بھی،یہاں عیش وعشرت بھی ہے اور بھکمری و تنگ دستی بھی،عقلمند وہ ہے جو عیوب میں ہنر ڈھونڈ لے،خرابیوں سے اچھائی باہر نکالے، ظلمت میں نور تلاش کرے،سیاہ رات کی بجائے روشن سویرے کا استقبال کرے کیونکہ Every cloud has silver liningماضی پر ماتم کر کے مستقبل سنوارا نہیں جا سکتا۔برائیوں کے ڈر سے اچھائیوں کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔صرف نقصانات گِنوا کر ہم فوائد سے کنارا کشی اختیار نہیں کرسکتے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ:
فرق آنکھوں میں نہیں فرق ہے بینائی میں عیب بیں عیب ،ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں
No comments:
Post a Comment