HOME

Showing posts with label دنیات. Show all posts
Showing posts with label دنیات. Show all posts

Monday 18 May 2020

اسلامی مہینوں کے فضائل


محمد بن قاسم



محمد بن قاسم 

محمد بن قاسم  کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کا ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا ۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر کے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ اس کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے ۔اور اسی لیئے سندھ کو باب اسلام یعنیٰ اسلام کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہی سے کھلا۔

محمد بن قاسم 694ء میں طائف میں پیدا ہوا ۔ اس کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں شمار کیئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے تففی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد بن قاسم کے والد قاسم بھی تھے ۔ جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اس طرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباََ پانچ سال کی عمر میں اس کے والد انتقال کر گئے۔

بچپن ہی سے محمد بن قاسم مستقبل کا زہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کر سکا اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگیا۔ فنون سپہ گری کی تربیت اس نے دمشق میں حاصل کی تھی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلی عہدے حاصل کر کے امتیازی حیثیت حاصل کی۔

15سال کی عمر میں ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے سپہ سالار ی کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالمالک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا اور اس شہر کا گورنر مقرر ہو ا جہا ں اس نے اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کر کے اپنی قابلیت و سکہ بٹھایا۔

19 سال کی عمر میں ایران کے صوبہ فارس کا گورنر مقرر ہوا۔ اور دس سال تک یہ زمہ داری سر انجام دی ۔محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا ۔ اس نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کر کے سندھ کی فتوحات کو پایئہ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف پڑھنے کی خواہش حالات نے پورہ نہ ہونے دی۔

نظام رواداری: محمد بن قاسم کم سن تھا لیکن اس کم سنی میں بھی اس نے نہ صرف ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک کامیاب منظم ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ اس نے تقریباََ 4 سال سندھ میں گزارے لیکن اس مختصر عرصے میں اس نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔

محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبارسے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔

شخصیت و کردار: 

محمد بن قاسم ایک نو عمر نوجوان تھا اس کم عمری میں اس نے سندھ کی مہم پر سالار کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دیئے وہ اس کے کردار کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔

وہ زبردست جنگی قابلیت اور انتظامی حلاحیتوں کا مالک تھا ۔ اس کی ان صلاحیتوں کی ثبوت کے لئے سندھ کی مہم کی کامیابی ہی کافی ہے۔ اس کی اخلاقی و کردار کا اندازہ اس کی بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔سندھ کے عوام اس سے حد در جہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے ۔ تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی تحریر کرتے ہیں۔

محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا ۔ ان کی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں پرستوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بنا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا یہی فکر فکر فتوح البلدان کے مصنف نے بھی کیا ہے۔محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی ۔ اس کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنا لیتا تھا۔

اس کی زبان شیریں اور چہرہ ہنس مکہ تھا۔ وہ ایک باہمت ، با مروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھا۔ وہ شخص سے محبت سے پیش آتا اور اس کے ماتحت اس کی حد درجہ عزت و احترام کرتے تھے ۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتا تھا ۔ اس نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور اس کا ہر قدم کامیابی کی راہیں تلاش کرتا تھا ۔ اس کی بلند خیالی اور مستحکم ادارے اس کی کامیابی کی دلیل تھے۔

ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے شمالی ہند کو سر سبز و شاداب علاقے کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قدم بڑھائے ۔ پہلے فتوج کے راجہ کو دعوت اسلام دی لیکن اس نے قبول نہ کی تو محمد بن قاسم نے فتوج پر حملہ کی تیاری شروع کر دی ۔ اس دوران 95ھ میں حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا جس پر محمد بن قاسم نے فتوج پر فوج کشی کے بجائے واپس آگیا۔

حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبد الملک نے مشرقی ممالک کے تمام گورنروں کے نام احکامات جاری کئے کہ وہ تمام فتوحات اور پیش قدمی روک دیں ۔محمد بن قاسم کی شمال ہند کی فتوحات کی خواہش پوری کرنے کی حالات نے اجازت نہ دی اور کچھ ہی ماہ بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بھی 96ھ میں انتقال ہوگیا۔

اموی خلیفہ ولیدبن عبدالملک کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہوگیا ۔ کیونکہ ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدلملک جانشین مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا ۔ حجاج کا انتقال اگر چہ اس کی خلافت کے آغاز سے قبل ہی ہو گیا لیکن اس عدالت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کی جرم میں عذاب کا نشانہ بنایا۔

سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب اس گرفتار ی کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہاکہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے تمہارے ہاتھ پربیعت کرتے ہیں ۔ خلیفہ کا ہاتھ ہر گز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ ک حکم کے سامنے آپ کو جھکا دیا ۔ یہ اس کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کے امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر زرہ آتا لیکن اس نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کر دیا ۔

محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیجا گیا ۔ سلیمان نے اسے واسط کے قید خانے میں قید کر والیا ۔7ماہ بعد قید خانے کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ واپس اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ اس طرح محسن سلطنت کی خلیفہ نے قدر نہ کی اور ایک عظیم فاتح محض کی زاتی عداوت و دشمنی کی بناء پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ لیکن اس نے جنگی صلاحیتو ، جرات اور حسن و اخلاق کے باعث ہندوستان میں کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں اس کی موت سے دنیا ئے اسلام کو عظیم نقصان پہنچا۔

سندھ محمد بن قاسم کے بعد :

 محمد بن قاسم سندھ میں چار سال رہا ۔ فتح سندھ کے بعد اس نے یہاں کا نظام حکومت انتہائی کامیابی سے چلایا۔ اس نظام کی کامیابی یقینا اس کی شخصیت کی پرہون منت تھی۔ اسے سندھ کی گورنری سے معزول کر کے یزید بن ابی کبشہ مقرر کیا گیا۔لیکن ا س کا چند ہی دن بعد انتقال ہو گیا۔ اس کے انتقال اور نئے گورنری کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات سندھ میں بد نظمی کی صورت میں نظر آنے لگے۔.





Sunday 26 April 2020

سحر اور افطار ٹپس

🍇🍓🍊🌺🍐🍎🍏 
سحر اور افطار ٹپس (Tips)
➿➿➿🌺➿➿➿


❣ *سحری کے لیئے کچھ ٹپس*❣




ہمیشہ یاد رکھیں کہ سحری میں حد سے زیادہ کھانا صرف آدھے دن کی بھوک کے احساس کوکم نہیں کرتا بلکہ اس سے دن کے آغاز پر معدے پر شدید بوجھ پڑتا ھے اس سے نظام ہضم خراب ھوکر گیس اور تیزابیت پیدا ھو جاتی لہذا کوشش کریں کہ رات کو جلدی سوجائیں اور سحری میں پروٹین والی غذا استمال کریں مثلاً اناج دودھ گوشت وغیرہ موسمی پھل کا جوس اور کھجور

🌿 *افطار کی ٹپس*🌿

افطار میں کھانا ہلکا پھلکا ھو زیادہ فرائی کی ھوئی چیزوں سے بہت بہتر ھے کہ پھل اور کھجور لیں
*بہت زیادہ لگاتار پانی ایک ساتھ نہ پیئیں اس سے معدہ کمزور ھوتا ھے*
چربی والی چیزیں اور نمک کا بے تحاشہ استمال مت کریں
افطار ضرور کریں لیکن جلدی کریں ساتھ ھی روٹی چاول گوشت کا استمال کریں

        〰〰💕〰〰 
                               اگر ھائی بلڈ پریشر یا شوگر کا مرض ھے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں
گرمی میں تازہ پھلوں کے جوسز دودھ دھی اور متوازن غذا کا خیال رکھیں
یعنی کہ دالیں سبزیاں کچی سبزیاں استمال کریں

     〰〰💕〰〰 
                                       میدہ اور بیسن ایک متوازن مقدار میں لیں اور روٹی اور پراٹھے کے لیئے سفید آٹے کی جگہ لال آٹا استمال کریں

      〰〰💕〰〰
                                           گلوکوز کو کسی کسی دن شربت میں ضرور استمال کریں اس سے آپ کے جسم کو طاقت اور توانائی ملتی ھے

       〰〰💕〰〰
                          مصنوعی شربت اور کولڈ ڈرنک نہ ہی لیں تو بہتر ھے ان میں شکر کی مقدار آپ کے جسم کی مطلوبہ خواہش سے بہت زیادہ ھوتی ھے جو امراض کو دعوت دیتی ھے روزے کے دوران غصہ نہ کریں

       〰〰💕〰〰
                                غصہ اور چڑاچڑاپن ھو تو وضو کرلیں اور *تلاوت* کی طرف دھیان دیں اس سے آپ کو انشا اللہ بہت فائدہ ھوگا

      〰〰💕〰〰
                                       خود بھی خوش اور پر سکون رھیں اور اپنے گھر والوں کو بھی خوش رکھیں
اگر ہر کام میں ثواب کی نیت ھو تو ہر کام آسان ھوجاتا ھے

〰〰🌟💕🌟〰〰 
  اکثر خواتین نیند پوری نہ ھونے سے بہت غصیلی اور چڑچڑی ھوجاتی ھیں  تو اپنی نیند پوری کرنے والا سیٹ اپ کریں
گھر میں رھیں اور بلاوجہ بازاروں میں مت جائیں بازار تو دنیا کی بدترین جگہیں ھیں

*لہذا کوشش کریں کہ اس مقدس مہینے کی تمام برکات سے آپ مستفید ھو سکیں۔*






فیضانِ رمضان


اعجاز قرآن

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*


الحمدللہ۔ 

*روز ایک پارے کا خلاصہ پیش کیا جائے گا تحریری شکل میں۔*


امید ہے کہ آپ پارے کے خلاصہ کو پڑھ کر سمجھ نے کی کوشش کریں گے۔۔

پہلا پارہ​

اس پارے میں پانچ باتیں ہیں

1۔اقسام انسان

2۔اعجاز قرآن

3۔قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام

4۔احوال بنی اسرائیل

5۔قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام

1۔اقسام انسان تین ہیں:

 مومنین ، منافقین اور کافرین۔
مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:

۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت صلوۃ ۳۔انفاق ۴۔ایمان بالکتب ۵۔یقین بالآخرۃ

منافقین کی کئی خصلتیں مذکور ہیں: جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب۔
اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔

2۔اعجاز قرآن:

جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمھارا کلام بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔

3۔قصۂ حضرت آدم علیہ السلام :

اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا، فرشتوں کا انسان کو فسادی کہنا، اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السالم کو علم دینا،

 فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا، فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا، شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا، جنت میں آدم وحواء علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔

4۔احوال بنی اسرئیل:
ان کا کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔

5۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اسے قبول کروانا اور پھر توبہ و استغفار کرنا۔

دوسرا پارہ​

اس پارے میں چار باتیں ہیں:

1۔تحویل قبلہ
2۔آیت بر اور ابوابِ بر
3۔قصۂ طاعون
4۔قصۂ طالوت

1۔تحویل قبلہ:
ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس قبلہ رہا ، آپ ﷺ کی چاہت تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو، اللہ تعالیٰ نے آرزو پوری کی اور قبلہ تبدیل ہوگیا۔

2۔آیتِ بر اور ابوابِ بر:

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ ۔۔۔۔ (البقرۃ:۱۷۷) یہ آیتِ بر کہلاتی ہے، اس میں تمام احکامات عقائد، عبادات، معاملات،

 معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر مذکور ہیں، آگے ابواب البر میں تفصیلی طور پر ہیں:


۱۔صفا مروہ کی سعی ۲۔مردار، خون، خنزیرکا گوشت اور جو غیر اللہ تعالیٰ کے نامزد ہو ان کی حرمت ۳۔قصاص ۴۔وصیت ۵۔روزے ۶۔اعتکاف ۷۔حرام کمائی ۸۔قمری تاریخ ۹۔جہاد ۱۰۔حج ۱۱۔انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ ۱۲۔ہجرت ۱۳۔شراب اور جوا ۱۴۔مشرکین سے نکاح ۱۵۔حیض میں جماع ۱۶۔ایلاء ۱۷۔طلاق ۱۸۔عدت ۱۹۔رضاعت ۲۰۔مہر ۲۱۔حلالہ ۲۲۔معتدہ سے پیغامِ نکاح۔

3۔قصۂ طاعون:

کچھ لوگوں پر طاعون کی بیماری آئی، وہ موت کے خوف سے دوسرے شہر چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے (دو فرشتوں کو بھیج کر) انھیں موت دی (تاکہ انسانوں کو پتا چل جائے کہ کوئی موت سے بھاگ نہیں سکتا) کچھ عرصے بعد اللہ نے (ایک نبی کے دعا مانگنے پر) انھیں دوبارہ زندگی دے دی۔

4۔قصۂ طالوت:

طالوت کے لشکر نے جالوت کے لشکر کو باوجود کم ہونے کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے شکست دے دی۔

تیسرا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

1۔بقیہ سورۂ بقرہ
2۔ابتدائے سورۂ آل عمران

(پہلا حصہ) سورۂ بقرہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:
۱۔دو بڑی آیتیں ۲۔دو نبیوں کا ذکر ۳۔صدقہ اور سود

۱۔ دو بڑی آیتیں:
ایک ”آیت الکرسی“ ہے جو فضیلت میں سب سے بڑی ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
دوسری ”آیتِ مداینہ“ جو مقدار میں سب سے بڑی ہے اس میں تجارت اور قرض مذکور ہے۔

۲۔ دو نبیوں کا ذکر:
ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور احیائے موتٰی کے مشاہدے کی دعاء۔
دوسرے عزیر علیہ السلام جنھیں اللہ تعالیٰ نے سوسال تک موت دے کر پھر زندہ کیا۔

۳۔ صدقہ اور سود:
بظاہر صدقے سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے، مگر در حقیقت صدقے سے بڑھتا ہے اور سود سے گھٹتا ہے۔

(دوسرا حصہ) سورۂ آل عمران کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:
1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
2۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے
3۔اہل کتاب سے مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ
4۔ انبیائے سابقین سے عہد

1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب ہے۔ سورۂ بقرہ میں اکثر خطاب یہود سے ہے جبکہ آل عمران میں اکثر روئے سخن نصاری کی طرف ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے:
پہلا قصہ جنگ بدر کا ہے، تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو شکست دے دی۔
دوسرا قصہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم پھل کے پائے جانے کا ہے۔
تیسرا قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہونے کا ہے۔
چوتھا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے، بچپن میں بولنے اور زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے۔

3۔ مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ:
اہل کتاب سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لاؤ، میں اپنے اہل و عیال کو لاتا ہوں، پھر مل کر خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کہ لعنت ہو، وہ تیار نہ ہوئے تو پھر مفاہمہ ہوا، یعنی ایسی بات کی دعوت دی گئی جو سب کو تسلیم ہو اور وہ ہے کلمۂ ”لا الہ الا اللہ“۔

4۔ انبیائے سابقین سے عہد:
انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب آخری نبی آئے تو تم اس کی بات مانو گے، اس پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمھارے بعد آئے تو تمھاری امتیں اس پر ایمان لائیں۔

چوتھا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ بقیہ سورۂ آل عمران
۲۔ ابتدائے سورۂ نساء

(پہلا حصہ) سورۂ آل عمران کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں ہیں:​

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل
2۔ باہمی جوڑ
3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
4۔ تین غزوے
5۔ کامیابی کے چار اصول

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل:
یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے اور اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے: مقام ابراہیم۔ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔

2۔ باہمی جوڑ:
اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔

3۔ امر بالمعروف اور نہی عن النکر:
یہ بہترین امت ہے کہ لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالی گئی ہے، بھلائی کا حکم کرتی ہے، برائی سے روکتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

4۔ تین غزوے:
۱۔غزوۂ بدر ۲۔غزوۂ حد ۳۔غزوۂ حمراء الاسد

5۔ کامیابی کے چار اصول:
۱۔صبر ۲۔مصابرہ ۳۔مرابطہ ۴۔تقوی

(دوسرا حصہ) سورۂ نساء کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:​

1۔ یتیموں کا حق: (ان کو ان کا مال حوالے کردیا جائے۔)
2۔ تعدد ازواج: (ایک مرد بیک وقت چار نکاح کرسکتے ہیں بشرط ادائیگیٔ حقوق۔)
3۔ میراث: (اولاد ، ماں باپ ، بیوی ، کلالہ کے حصے بیان ہوئے اس قید کے ساتھ کہ پہلی وصیت ادا کردی جائے۔)
4۔ محرم عورتیں: (مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، رضاعی مائیں، رضاعی بہنیں، ساس، سوتیلی بیٹیاں، بہویں۔)

پانچواں پارہ​

اس پارے میں آٹھ باتیں ہیں:​

۱۔ خانہ داری کی تدابیر
۲۔ عدل اور احسان
۳۔ جہاد کی ترغیب
۴۔ منافقین کی مذمت
۵۔ قتل کی سزائیں
۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف
۷۔ ایک قصہ
۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب

۱۔ خانہ داری کی تدابیر:
پہلی ہدایت تو یہ دی گئی کہ مرد سربراہ ہے عورت کا پھر نافرمان بیوی سے متعلق مرد کو تین تدبیریں بتائی گئیں: ایک یہ کہ اس کو وعظ و نصیحت کرے، نہ مانے تو بستر الگ کردے، اگر پھر بھی نہ مانے تو انتہائی اقدام کے طور پر حد میں رہتے ہوئے اس کی پٹائی بھی کرسکتا ہے۔

۲۔ عدل واحسان:
عدل و احسان کا حکم دیا گیا تاکہ اجتماعی زندگی بھی درست ہوجائے۔

۳۔ جہاد کی ترغیب:
جہاد کی ترغیب دی کہ موت سے نہ ڈرو وہ تو گھر بیٹھے بھی آسکتی ہے، نہ جہاد میں نکلنا موت کو یقینی بناتا ہے، نہ گھر میں رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

۴۔ منافقین کی مذمت:
منافقین کی مذمت کرکے مسلمانوں کو ان سے چوکنا کیا ہے کہ خبردار! یہ لوگ تمھیں بھی اپنی طرح کافر بنانا چاہتے ہیں۔

۵۔ قتل کی سزائیں:
قتل کی سزائیں بیان کرتے ہوئے بڑا سخت لہجہ استعمال ہوا کہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلے گا، مراد اس سے جائز سمجھ کر قتل کرنے والا ہے۔

۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف:
جہاد کی ترغیب دی تھی، اس میں ہجرت بھی کرنی پرتی ہے اور جہاد ار ہجرت میں نماز پڑھتے وقت دشمن کا خوف ہوتا ہے، اس لیے صلاۃ الخوف بیان ہوئی۔

۷۔ ایک قصہ:
ایک شخص جو بظاہر مسلمان مگر در حقیقت منافق تھا اس نے چوری کی اور الزام ایک یہودی پر لگادیا، نبی علیہ السلام تک یہ واقعہ پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کے خلاف فیصلہ دینے ہی والے تھے کہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ چور وہ مسلمان نما منافق ہے، چنانچہ وہ چور مکہ بھاگا اور کھلا کافر بن گیا۔

۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب:
شیطان کی اطاعت سے بچو، وہ گمراہ کن ہے، ابوالانبیاء ابرہیم علیہ السلام کی اتباع کرو، عورتوں کے حقوق ادا کرو، منافقین کے لیے سخت عذاب ہے۔

چھٹا پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ نساء کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ مائدہ کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ نساء کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:
۱۔ یہود کی مذمت
۲۔ نصاری کی مذمت
۳۔ میراث

۱۔ یہود کی مذمت:
انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔

۲۔ نصاری کی مذمت:
یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کا شکار کر عقیدۂ تثلیث کے حامل ہوگئے۔

۳۔ میراث:
عینی اور علاتی بہنوں کے حصے مذکور ہوئے کہ ایک بیٹی کو نصف ، ایک سے زیادہ کو دو ثلث اور اگر بھائی بھی ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا ملے گا۔

(دوسرا حصہ) سورۂ مائدہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:
۱۔ اوفوا بالعقود (ہر جائز عہد اور عقد جو تمھارے اور رب کے درمیان ہو یا تمھارے اور انسانوں کے درمیان ہو اسے پورا کرو)
۲۔ حرام چیزیں (بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)
۳۔ طہارت (وضو ، تیمم اور غسل کے مسائل)
۴۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ (قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تھا، قتل اور چوری کے احکامات)
۵۔ یہود و نصاری کی مذمت (یہ لوگ خود کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں، حالانکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی آتا ہے، نبی علیہ السلام کو انکی طرف سے جو سرکشیاں ہوئی ہیں ان پر تسلی دی گئی، مسلمانوں کو ان سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا اور حضرت داؤد اور عیسٰی علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنتِ خداوندی مذکور ہوئی، پھر آخر میں بتایا کہ یہ تمھارے خطرناک دشمن ہیں)

ساتواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ مائدہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ انعام ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ مائدہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:​
۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف
۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل
۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف:
جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اسے سن کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔
۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل:
۔۔۔ہر چیز خود سے حلال یا حرام نہ بناؤ۔
۔۔۔لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں، البتہ یمین غموس پر کفارہ ہے، یعنی دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا انھیں پہننے کے لیے کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور ان تینوں کے نہ کرسکنے کی صورت میں تین دن روزے رکھنا۔
۔۔۔شراب، جوا، بت اور پانسہ حرام ہیں۔
۔۔۔حالتِ احرام میں محرم تری کا شکار کرسکتا ہے، خشکی کا نہیں۔
۔۔۔حرم میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔
۔۔۔چار قسم کے جانور مشرکین نے حرام کر رکھے تھے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔
۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
قیامت کے دن حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے پوچھا جائے گا کہ جب تم نے ہمارا پیغام پہنچایا تو تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ اسی سوال و جواب کے تناظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ اپنے احسانات گنوائیں گے، ان احسانات میں مائدہ والا قصہ بھی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے کہو ہم پر ایسا دسترخوان اتارے جس میں کھانے پینے کی آسمانی نعمتیں ہوں، چناچہ دسترخوان اتارا گیا، ان احسانات کو گنواکر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے اے عیسیٰ! کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ تجھے اور تیری ماں کو معبود مانیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے تو پاک ہے، میں نے تو ان سے تیری عبادت کا کہا تھا الی آخرہ۔

(دوسرا حصہ) سورۂ انعام کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں ہیں:​
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت

۱۔ توحید:
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور عظمت وکبریائی خوب بیان ہوئی ہے۔
۲۔ رسالت:
نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے:
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام ، (۲)حضرت اسحاق علیہ السلام ، (۳)حضرت یعقوب علیہ السلام ، (۴)حضرت نوح علیہ السلام ، (۵)حضرت داؤد علیہ السلام ، (۶)حضرت سلیمان علیہ السلام ، (۷)حضرت ایوب علیہ السلام ، (۸)حضرت یوسف علیہ السلام ، (۹)حضرت موسٰی علیہ السلام ، (۱۰)حضرت ہارون علیہ السلام ، (۱۱)حضرت زکریا علیہ السلام ، (۱۲)حضرت یحیٰ علیہ السلام ، (۱۳)حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، (۱۴)حضرت الیاس علیہ السلام ، (۱۵)حضرت اسماعیل علیہ السلام ، (۱۶)حضرت یسع علیہ السلام ، (۱۷)حضرت یونس علیہ السلام ، (۱۸)حضرت لوط۔
۳۔ قیامت:
۔۔۔ قیامت کے روز اللہ تمام انسانوں کا جمع کرے گا۔ (آیت:۱۲)
۔۔۔ روزِ قیامت کسی انسان سے عذاب کا ٹلنا اس پر اللہ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ (آیت:۱۶)
۔۔۔ روزِ قیامت مشرکین سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کہاں ہیں تمھارے شرکاء؟ (آیت:۲۲)
۔۔۔ اس روز جہنمی تمنا کریں گے کہ کاش! انھیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ اللہ رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والے بن جائیں۔(آیت:۲۷)

۔۔۔ دنیا کی زندگی تو کھیل اور مشغلہ ہے ، آخرت کی زندگی بدرجہا بہتر ہے۔ (آیت:۳۲)

آٹھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انعام کا بقیہ حصہ
۲۔سورۂ اعراف کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ انعام کے بقیہ حصے میں چار باتیں ہیں:
۱۔ تسلی رسول
۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں
۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں
۴۔ دس وصیتیں

۱۔ تسلی رسول:
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ یہ لوگ ضدی ہیں، معجزات کا بے جا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، اگر مردے بھی ان سے باتیں کریں تو یہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے، قرآن کا معجزہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں:
۱۔ یہ لوگ چوپایوں میں اللہ تعالیٰ کا حصہ اور شرکاء کا حصہ الگ الگ کردیتے، شرکاء کے حصے کو اللہ تعالیٰ کے حصے میں خلط نہ ہونے دیتے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ شرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہ سمجھتے۔ (آیت:۱۳۵)
۲۔ فقر یا عار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کردیتے۔ (آیت:۱۳۶)
۳۔ چوپایوں کی تین قسمیں کر رکھی تھیں: ایک جو ان کے پیشواؤں کے لیے مخصوص، دوسرے وہ جن پر سوار ہونا ممنوع، تیسرے وہ جنھیں غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے تھے۔ (آیت:۱۳۸)
۴۔ چوپائے کے بچے کو عورتوں پر حرام سمجھتے اور اگر وہ بچہ مردہ ہوتا تو عورت اور مرد دونوں کے لیے حلال سمجھتے۔ (آیت:۱۳۹)

۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں:
(۱)کھیتیاں (۲)چوپائے

۴۔ دس وصیتیں:
(۱)اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۲)ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۳)اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۴)برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۵)ناحق قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)
(۶)یتیموں کا مال نہ کھایا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۷)ناپ تول پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۸)بات کرتے وقت انصاف کو مد نظر رکھا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۹)اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)
(۱۰)صراط مستقیم ہی کی اتباع کی جائے۔ (آیت:۱۵۳)

(دوسرا حصہ) سورۂ اعراف کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں
۲۔ چار ندائیں
۳۔ جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ
۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل
۵۔ پاتچ قوموں کے قصے

۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں:
(۱)قرآن کریم (۲)تمکین فی الارض (۳)انسانوں کی تخلیق (۴)انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔

۲۔ چار ندائیں:
صرف اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار مرتبہ يَا بَنِي آدَمَ کہہ کر پکارا ہے۔ پہلی تین نداؤں میں لباس کا ذکر ہے، اس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر رد کردیا کہ تمھیں ننگے ہوکر طواف کرنے کو االلہ تعالیٰ نے نہیں کہا جیسا کہ ان کا دعوی تھا۔ چوتھی ندا میں اللہ تعالیٰ نے اتباع رسول کی ترغیب دی ہے۔

۳۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ:
جنتی کہیں گے: ”کیا تمھیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین آگیا؟“، جہنمی اقرار کریں گے، جہنمی کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے: ”اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:
(۱)بلند وبالا آسمان (۲)وسیع وعریض عرش (۳)رات اور دن کا نظام (۴)چمکتے شمس و قمر اور ستارے (۵)ہوائیں اور بادل (۶)زمین سے نکلنے والی نباتات

۵۔ پانچ قوموں کے قصے:
(۱)قوم نوح (۲)قوم عاد (۳)قوم ثمود (۴)قوم لوط اور (۵)قوم شعیب
ان قصوں کی حکمتیں: (۱)تسلی رسول (۲)اچھوں اور بروں کے انجام بتانا (۳)اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں (۴)رسالت کی دلیل کہ امی ہونے کے باوجود پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں (۵)انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت

نواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ اعراف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ انفال کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:​
۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ
۲۔ عہد الست کا ذکر
۳۔ بلعم بن باعوراء کا قصہ
۴۔ تمام کفار چوپائے کی طرح ہیں
۵۔ قیامت کا علم کسی کو نہیں
۶۔ قرآن کی عظمت

بلعم بن باعوراء کا قصہ:
فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا، اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انھوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے شروع کیے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اس کو کتے کی طرح کردیا۔ فمثله كمثل الكلب

(۲) سورۂ انفال کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں یہ ہیں:​
۱۔ غزوہ بدر اور مال غنیمت کا حکم
۲۔ مومنین کی پانچ صفات
۳۔ چھ بار مومنین سے خطاب

مومنین کی پانچ صفات یہ ہیں:
(۱)خشیت (۲)تلاوت (۳)توکل (۴)نماز (۵)سخاوت (آیت:۲و۳)

چھ بار مومنین سے خطاب:
(۱) آیت: ۱۴ (اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا)
(۲) آیت: ۲۰ (اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)
(۳) آیت: ۲۴ (اے ایمان والو! اللہ اور رسول جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو)
(۴) آیت: ۲۷ (اے ایمان والو! نہ اللہ اور رسول سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں)
(۵) آیت: ۲۹ (اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھیں ممتاز کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا)
(۶) آیت: ۴۵ (اے ایمان والو! دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو)

دسواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انفال کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ انفال کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں یہ ہیں:

۱۔ مال غنیمت کا حکم
۲۔ غزوۂ بدر کے حالات
۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب
۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات
۵۔ ہجرت اور نصرے کے فضائل

۱۔ مال غنیمت کا حکم:

مال غنیمت کا حکم یہ بیان ہوا کہ خمس نبی علیہ السلام آپ کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات:

(۱) کفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ اس جنگ کا ہونا اللہ کے ہاں طے ہوچکا تھا۔
(۲) شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا رہا دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔
(۳) قریش غزوۂ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب:
(۱) میدان جنگ میں ثابت قدمی۔
(۲) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے۔
(۳) اختلاف اور لڑائی سے بچ کر رہنا۔
(۴) مقابلے میں نا موافق امور پر صبر۔

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات:
(۱) دشمنوں سے مقابلے کے لیے مادی، عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں۔
(۲) اگر کافر صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح کرلو۔

۵۔ ہجرت اور نصرت کے فضائل:
(۱) مہاجرین و انصار سچے مومنین ہیں (۲) گناہوں کی مغفرت (۳) رزق کریم کا وعدہ

(۲) سورۂ توبہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد
مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان ہے، مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی۔

۲۔ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز
منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔

گیارھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ یونس مکمل

(۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:​
۱۔ منافقین کی مذمت
۲۔ مومنین کی نو صفات
۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ

۱۔ منافقین کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔

۲۔ مومنین کی نو صفات:
(۱)توبہ کرنے والے (۲)عبادت کرنے والے (۳)حمد کرنے والے (۴)روزہ رکھنے والے (۵)رکوع کرنے والے (۶)سجدہ کرنے والے (۷)نیک کاموں کا حکم کرنے والے (۸)بری باتوں سے منع کرنے والے (۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے

۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ:
(۱)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (۲)حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (۳)حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ
ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔

(۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:​
۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔آیت:۳۱)
۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں)
۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)
۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)

حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ:
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔

حضرت یونس علیہ السلام:
انھی کے نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:
ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
قصہ:
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔


بارھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے میں ہیں)

۲۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ

(۱) سورۂ ہود میں چار باتیں یہ ہیں:

۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت
۲۔ توحید اور دلائل توحید
۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات
۴۔ قیامت کا تذکرہ

۱۔ قرآن کی عظمت:
(۱) قرآن اپنی آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی ، حال ، مستقبل ، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
(۲)منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔

۲۔ توحید اور دلائل توحید:
ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات:
(۱)حضرت نوح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔
(۲)حضرت ہود علیہ السلام۔۔ ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔
(۳)حضرت صالح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔
(۴)حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب ہوئے۔
(۵)حضرت لوط علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔
(۶)حضرت شعیب علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔
(۷)حضرت موسی علیہ السلام۔۔ فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

۴۔ قیامت کا تذکرہ:
روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی: (۱)بد بخت لوگ (۲)نیک بخت لوگ
بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جب تک اللہ چاہیں گے۔(حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)
نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔

(۲) سورۂ یوسف میں قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام بالتفصیل ہے:​
تمہید:
تمام انبیائے کرام کے قصے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا صرف اسی سورت میں ہے، دوسری سورتوں میں ان کا نام تو آیا ہے، مگر قصہ تھوڑا سا بھی کسی اور سورت میں مذکور نہیں ہے۔
حضررت یوسف علیہ السلام کا قصہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے بہت زیادہ مشابہ ہے، آپ علیہ السلام کے بھی قریشی بھائیوں نے آپ سے حسد کیا، آپ کو مکہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں رہے آپ علیہ السلام غار ثور میں۔ وہ مصر گئے آپ مدینہ گئے۔ وہ وزیر بنے آپ پہلی اسلامی مملکت کے حاکم بنے۔ بعد میں بھائی ان کے شرمندہ ہوکر آئے، آپ کے سامنے بھی فتح مکہ کے موقع پر سب نے گردن جھکالی۔ انھوں نے کہا: “لاتثریب علیكم الیوم“(آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (و ملامت) نہیں ہے) آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا: ”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔

قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حسین تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، ان کے والد نے انھیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا، باپ کی بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا، جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی، عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قیدخانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ گئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انھیں بتایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔

بصائر و عبر از قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:
(۱)مصہبت کے بعد راحت ہے۔ (۲)حسد خوفناک بیماری ہے۔ (۳)اچھے اخلاق ہر جگہ کام آتے ہیں۔ (۴)پاکدامنی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ (۵)نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے۔ (۶)ایمان کی برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔ (۷)معصیت پر مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔ (۸)داعی جیل میں بھی دعوت دیتا ہے۔ (۹)موضع تہمت سے بچنا چاہیے۔ (۱۰)جو حق پر تھا اس کی سب نے شہادت دی: اللہ تعالیٰ نے، خود حضرت یوسف علیہ السلام نے، عزیز مصر کی بیوی نے، عورتوں نے، عزیزِ مصر کے خاندان کے ایک فرد نے۔

تیرھواں پارہ​

اس پارے میں تین حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ رعد مکمل
۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل

(۱) سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ:
اس کی تفصیل پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔

(۲) سورۂ رعد میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی حقانیت
۲۔ توحید
۳۔ قیامت
۴۔ رسالت
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات

۱۔ قرآن کی حقانیت:
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔
۲۔ توحید:
آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
۳۔ قیامت:
مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔
۴۔ رسالت:
ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات:
متقین کی آٹھ صفات: (۱)وفاداری (۲)صلہ رحمی (۳)خوف خدا (۴)خوف آخرت (۵)صبر (۶)نماز کی پابندی (۷)صدقہ (۸)برائی کا بدلہ اچھائی سے
اشقیاء کی تین علامات: (۱)وعدہ خلافی (۲)قطع رحمی (۳)فساد فی الارض

(۳) سورۂ ابراہیم میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت
۴۔ چند اہم باتیں
۵۔ چھ دعائیں

۱۔ توحید:
تمام آسمانوں اور زمینوں کو اللہ نے بنایا ہے، اسی نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر انسانوں کے لیے زمین سے قسم قسم کے پھل نکالے اور پانی کی سواریوں اور نہروں کو انسانوں کے تابع کردیا اور سورج اور چاند اور رات اور دن کو انسانوں کے کام میں لگادیا، غرض جو کچھ انسانوں نے مانگا اللہ نے عطا کیا، اس کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی گنتی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔
۲۔ رسالت:
اس کے ضمن میں کچھ باتیں یہ ہیں:
۱۔ نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے بتایا گیا ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے اعراض و انکار اور عداوت و مخالفت کا یہی رویہ اختیار کیا تھا، جو آپ کی قوم اختیار کیے ہوئے ہے۔
۲۔ ہر نبی اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا ہے۔
۳۔ پچھلی قوموں کے مکذبین کے کچھ شبہات کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں شک (۲)بشر رسول نہیں ہوسکتا (۳)تقلید آباء۔ ان شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
۳۔ قیامت:
کافروں کے لیے جہنم اور مومنین کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔ روزِ قیامت حساب کتاب ہوچکنے کے بعد شیطان گمراہوں سے کہے گا کہ جو وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا ، میں نے تم پر زبردستی نہیں کی تھی، تم خود میرے بہکاوے میں آگئے تھے، اب مجھے ملامت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔
۴۔ چند اہم باتیں:
(۱) شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکروں کے لیے اللہ تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔
(۲) کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ تیز ہوا آئے اور سب اڑا لے جائے۔
(۳) حق اور ایمان کا کلمہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے ، اس کی جڑ بڑی مضبوط اور اس کا پھل بڑا شیریں ہوتا ہے اور باطل اور ضلالت کا کلمہ ناپاک درخت کی مانند ہے ، اس کے لیے قرار بھی نہیں ہوتا اور وہ ہوتا بھی بے ثمر ہے۔
(۴) اللہ تعالیٰ ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔
۵۔چھ دعائیں:
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے چھ دعاؤں کا ذکر ہے:
(۱)امن (۲)بت پرستی سے حفاظت (۳)اقامتِ صلاۃ (۴)دلوں کا میلان (۵)رزق (۶)مغفرت کی درخواست

چودھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ حجر مکمل
۲۔ سورۂ نحل مکمل

(۱) سورۂ حجر میں چار باتیں یہ ہیں:​

۱۔ کفار کی آرزو (آخرت میں جب کفار مسلمانوں کو مزے میں اور خود کو عذاب میں دیکھیں گے تو تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوجاتے)

۲۔ قرآن کی حفاظت (اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے)

۳۔ انسان کی تخلیق (اللہ تعالیٰ نے انسان کو منی سے بنایا، فرشتوں کا مسجود بنایا، شیطان مردود ہوا، اس نے قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھالی)

۴۔ تین قصے
پہلا قصہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرشتوں نے آکر بیٹے کی خوشخبری دی، اس وقت ان کی اہلیہ بہت بوڑھی تھیں، بظاہر یہ ولادت کی عمر نہ تھی، اس لیے آپ کو بیٹے کی خوش خبری سن کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی ہوا، فرشتوں نے کہا ہم آپ کو سچی خوشخبری سنا رہے ہیں آپ مایوس نہ ہوں، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا تو صرف گمراہوں کا کام ہے۔
دوسرا قصہ:
فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری سنا کر حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر رات ہی کو اس بستی سے نکل جائیے، کیونکہ آپ کی بستی والے گناہوں کی سرکشی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان لوگوں کی جڑ صبح صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔
تیسرا قصہ:
اصحاب الحجر ، ان سے مراد قوم ثمود ہے، یہ لوگ بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل نکلے تھے اور بار بار سمجھانے کے باوجود بت پرستی کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہورہے تھے، انھیں مختلف معجزات دکھائے گئے بالخصوص پہاڑی چٹان سے اونٹنی کی ولادت کا معجزہ جو کہ حقیقت میں کئی معجزوں کا مجموعہ تھا، اونٹنی کا چٹان سے برآمد ہونا، نکلتے ہی اس کی ولادت کا قریب ہونا، اس کی جسامت کا غیر معمولی بڑا ہونا، اس سے بہت زیادہ دودھ کا حاصل ہونا، لیکن ان بدبختوں نے اس معجزے کی کوئی قدر نہ کی، بجائے اس کے کہ وہ اسے دیکھ کر ایمان قبول کرلیتے انھوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا، چنانچہ وادی حجر والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آکر رہے۔

(۲) سورۂ نحل میں پانچ باتیں یہ ہیں:​
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ شہد کی مکھی
۴۔ جامع آیت
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف

۱۔ توحید:
اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا، انسان کو نطفے سے پیدا کیا، چوپائے پیدا کیے، جن میں مختلف منافع بھی ہیں اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث بھی ہوتے ہیں، گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے جو باربرداری کے کام آتے ہیں اور ان میں رونق اور زینت بھی ہوتی ہے۔ بارش وہی برساتا ہے، پھر اس بارش سے زیتون، کھجور، انگور اور دوسرے بہت سارے میوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے۔ رات اور دن، سورج اور چاند کو اسی نے انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ دریاؤں سے تازہ گوشت اور زیور وہی مہیا کرتا ہے۔ سمندر میں جہاز اور کشتیاں اسی کے حکم سے رواں دواں ہیں۔ اگر اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے۔
۲۔ رسالت:
نبی علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اللہ کی طرف بلائیں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں۔ نیز آپ کو صبر کرنے اور تنگدل نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔
۳۔ شہد کی مکھی:
شہد کی مکھی کا نظام بہت عجیب ہوتا ہے، یہ اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور درختوں میں اپنا چھتہ بناتی ہے، یہ مختلف قسم کے پھلوں کا رس چوستی ہے، پھر ان سے اللہ تعالیٰ شہد نکالتے ہیں، جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اس شہد میں اللہ نے انسانوں کی بیماریوں کے لیے شفا رکھی ہے۔
۴۔ جامع آیت:
اس سورت کی آیت نمبر ۹۰ میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے: عبادات اور معاملات میں عدل ، ہر ایک کے ساتھ اچھا سلوک اور قرابت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور واضح برائی ، منع کردہ کاموں اور ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف:
حضرت ابراہیم علیہ السلام زندگی بھر توحیدِ خالص پر جمےرہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا تھا۔

پندرھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ بنی اسرائیل مکمل​
۲۔ سورۂ کہف کا زیادہ تر حصہ​

(۱) سورۂ بنی اسرائیل میں چار باتیں یہ ہیں:

۱۔ واقعہ معراج
۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ وفساد
۳۔ اسلامی آداب و اخلاق
۴۔ دیگر مضامین

۱۔ واقعہ معراج:
معراج جسمانی ہوئی اور جاگنے کی حالت میں۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔
۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ و فساد:
بنی اسرائیل کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ تم لوگ دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے، چنانچہ ایک دفعہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تو بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا گیا، دوسری بار حضرت زکریا اور یحیٰ علیہما السلام کو شہید کردیا تو بابل کا بادشاہ ان پر مسلط ہوگیا۔
۳۔ اسلامی آداب و اخلاق: (آیات: ۲۳ تا ۳۹)
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو، مال کو فضول خرچی میں نہ اڑاؤ، نہ بخل کرو، نہ ہاتھ اتنا کشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے، اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، کسی جاندار کو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کے مال میں ناجائز تصرف نہ کرو، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، ناپ تول پورا پورا کیا کرو، جس چیز کے بارے میں تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، زمین پر اکڑ کر نہ چلو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
۴۔ دیگر مضامین:
قرآن کریم کی عظمت ، اس کے نزول کے مقاصد، اس کا معجزہ ہونا، اللہ کی طرف سے انسان کو تکریم دیا جانا ، اسے روح اور زندگی جیسی نعمت کا عطا ہونا، نبی علیہ السلام کو نمازِ تہجد کا حکم، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ، قرآن کریم کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی حکمت، اللہ تعالیٰ کا شریک اور اولاد سے پاک ہونا اور اسمائے حسنی کے ساتھ متصف ہونا۔

(۲) سورۂ کہف کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ دو قصے
۲۔ دو مثالیں

۱۔ دو قصے:
پہلا قصہ اصحاب کہف کا: یہ وہ چند صاحب ایمان نوجوان تھے جنھیں دقیانوس نامی بادشاہ بت پرستی پر مجبور کرتا تھا، وہ ہر ایسے شخص کو قتل کردیتا تھا جو اس کی شرکیہ دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا، ان نوجوانوں کو ایک طرف مال و دولت کے انبار ، اونچے عہدوں پر تقرر اور معیارِ زندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں اور دوسری طرف ڈرایا دھمکایا گیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں، ان نوجوانوں نے ایمان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم جانا اور اسے بچانے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، چلتے چلتے شہر سے بہت دور ایک پہاڑ کے غار تک پہنچ گئے، راستے میں ایک کتا بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا، انھوں نے اس غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا، وہ جب غار میں داخل ہوگئے تو اللہ نے انھیں گہری نیند سلادیا، یہاں وہ تین سو نو سال تک سوتے ہرے، جب نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی، انمیں سے ایک کھانا خریدنے کے لیے شہر آیا، وہاں اسے پہچان لیا گیا، تین صدیوں میں حالات بدل چکے تھے، اہلِ شرک کی حکومت کب کی ختم ہوچکی تھی اور اب موحد برسر اقتدار تھے، ایمان کی خاطر گھربار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیروز کی حیثیت اختیار کرگئے۔
دوسرا قصہ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا: اس کا ذکر اگلے پارے کے شروع میں ہوگا۔

۲۔ دو مثالیں:
پہلی مثال: دو شخص تھے، ایک کے باغات تھے اور دوسرا غریب تھا، باغات والا اکڑتا تھا، غریب نے کہا اکڑ نہیں ماشاء اللہ کہا کر، وہ نہ مانا اللہ کا عذاب آیا اور اس کے باغات جل گئے وہ شرمندہ ہوگیا۔
دوسری مثال: دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے پانی برسا، زمین سرسبز ہوگئی، کچھ عرصے بعد سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا۔

سولھواں پارہ​
اس پارے میں تین حصے ہیں:
۱۔ سورۂ کہف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ مریم مکمل
۳۔ سورۂ طٰہٰ مکمل

(۱) سورۂ کہف کے بقیہ حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا قصہ (جو پندرھویں پارے کے آخر میں شروع ہوکر سولھویں پارے کے شروع میں ختم ہورہا ہے)
۲۔ ذوالقرنین کا قصہ

۱۔ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے یہ اطلاع ہوئی کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں تو آپ ان کی تلاش میں چل پڑے، چلتے چلتے آپ سمندر کے کنارے پہنچ گئے، یہاں آپ کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے ان سے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی، انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے، پھر تین عجیب واقعات پیش آئے، پہلے واقعے میں حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کے تختے کو توڑ ڈالا جس کے مالکان نے انھیں کرایہ لیے بغیر بٹھالیا تھا، دوسرے واقعے میں ایک معصوم بچے کو قتل کردیا، تیسرے واقعے میں ایک ایسے گاؤں میں گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار کی تعمیر شروع کردی جس گاؤں والوں نے انھیں کھانا تک کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تینوں مواقع پر خاموش نہ رہ سکے اور پوچھ بیٹھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تیسرے سوال کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے جدائی کا اعلان کردیا کہ اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے، البتہ تینوں واقعات کی اصل حقیقت انھوں نے آپ کے سامنے بیان کردی، فرمایا کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی زبردستی چھین رہے تھے، جب میں نے اسے عیب دار کردیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے سے بچ گئی، یوں ان غریبوں کا ذریعۂ معاش محفوظ رہا۔ بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ یہ بڑا ہوکر والدین کے لیے بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا ، جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انھیں کفر کی نجاست میں مبتلا کردیتا، اس لیے اللہ نے اسے مارنے کا اور اس کے بدلے انھیں باکردار اور محبت و اطاعت کرنے والی اولاد دینے کا فیصلہ فرمایا۔ گرتی ہوئی دیوار اس لیے تعمیر کی کیونکہ وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی، ان کے والد اللہ کے نیک بندے تھے، دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا، اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے اور نیک باپ کے یہ دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے، ہم نے اس دیوار کو تعمیر کردیا تاکہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لاسکیں۔

۲۔ ذوالقرنین کا قصہ:
یہ بڑا زبردست وسائل والا بادشاہ تھا، اس کا گزر ایک قوم پر ہو جو ایک دوسری وحشی قوم کے ظلم کا نشانہ بنی ہوئی تھی، جسے قرآن نے ”یاجوج“ اور ”ماجوج“ کا نام دیا ہے۔ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج پر دیوار چن دی، اب وہ قربِ قیامت میں ہی ظاہر ہوں گے۔

(۲) سورۂ مریم میں تقریبا گیارہ انبیائے کرام علیہم السلام کا تذکرہ ہے:​
تین انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر قدرے تفصیلی ہے:
۱۔ حضرت یحی علیہ السلام کی ولادت (اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام اور ان کی اہلیہ کو بڑھاپے میں بیٹا عطا فرمایا جسے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا)
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت (اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انھیں بچپن میں ہی گویائی عطا فرمادی)
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کو دعوت (شرک نہ کریں، اللہ نے مجھے علم دیا ہے میری بات مان لیں، شیطان کی بات نہ مانیں، وہ اللہ کا نافرمان ہے ، اس کے مانیں گے تو اللہ کا عذاب آئے گا۔)

باقی آٹھ انبیائے کرام علیہم السلام کا یا تو بہت مختصر ذکر ہے یا صرف نام آیا ہے:
۴۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ۵۔حضرت ہارون علیہ السلام ۶۔حضرت اسماعیل علیہ السلام ۷۔حضرت اسحاق علیہ السلام ۸۔حضرت یعقوب علیہ السلام ۹۔حضرت ادریس علیہ السلام ۱۰۔حضرت آدم علیہ السلام ۱۱۔حضرت نوح علیہ السلام

(۳) سورۂ طٰہٰ میں تین باتیں یہ ہیں:​
۱۔ تسلی رسول
۲۔ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ
۳۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ

۱۔ تسلی رسول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت اور دعوت دونوں میں بے پناہ مشقت اٹھاتے تھے، راتوں کو نماز میں اتنی طویل قراءت فرماتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا اور پھر انسانوں تک قرآن کے ابلاغ اور دعوت میں بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے تھے اور جب کوئی اس دعوت پر کان نہ دھرتا تو آپ کو بے پناہ غم ہوتا ، اسی لیے رب کریم نے کئی مقامات پر آپ کو تسلی دی ہے، یہاں بھی یہی سمجھایا گیا کہ آپ اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں، اس قرآن سے ہر کسی کا دل متاثر نہیں ہوسکتا ، یہ تو صرف اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہو۔

۲۔ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو حالات اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے چند عنوانات قائم کیے جاسکتے ہیں، یعنی باری تعالیٰ کے ساتھ شرفِ ہم کلامی ، دریا میں ڈالا جانا، تابوت کا فرعون کو ملنا، پوری عزت اور احترام کے ساتھ رضاعت کے لیے لیے حقیقی والدہ کی طرف آپ کو لوٹا دینا، آپ سے ایک قبطی کا قتل ہونا لیکن اللہ کا آپ کو قصاص سے نجات دلانا، آپ کا کئی سال مدین میں رہنا، اللہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم، فرعون کے ساتھ موعظہ حسنہ کے اصول کے تحت مباحثہ، اس کا مقابلے کے لیے جادوگروں کو جمع کرنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح، ساحروں کا قبولِ ایمان، راتوں رات بنی اسرائیل کا اللہ کے نبی کی قیادت میں مصر سے خروج، فرعون کا مع لاؤ لشکر تعاقب اور ہلاکت ، اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کا ناشکراپن ، سامری کا بچھڑا بنانا اور اسرائیلیوں کی ضلالت، تورات لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طور سے واپسی اور اپنے بھائی پر غصے کا اظہار ، حضرت ہارون علیہ السلام کا وضاحت کرنا وغیرہ۔

۳۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرماکر مسجودِ ملائک بنایا ، سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا اب یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے ، جنت میں رہو یہاں آرام ہی آرام ہے نہ تم بھوکے ہوتے ہو نہ ننگے ، نہ پیاسے ہوتے ہو نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتے ہو بس فلاں درخت کے قریب نہ جانا، مگر شیطان نے وسوسہ پیدا کیا ، حضرت آدم و حواء علیہما السلام نے شجرِ ممنوع میں سے کچھ کھالیا ، اللہ نے انھیں جنت میں سے نکال دیا، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ نے انھیں معاف فرمایا دیا۔

سترھواں پارہ​

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انبیاء
۲۔ سورۂ حج

(۱) سورۂ انبیاء میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ قیامت
۲۔ رسالت
۳۔ توحید

۱۔ قیامت:
بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آگیا ہے، لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(۱)
نیز قربِ قیامت میں یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ رہ بلندی سے اتر رہے ہوں گے۔(۹۶)
نیز مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔(۹۸)

۲۔ رسالت:
رسالت کے ضمن میں سترہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہے: (۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام ، (۲)حضرت ہارون علیہ السلام (۳)حضرت ابراہیم علیہ السلام ، (۴)حضرت لوط علیہ السلام، (۵)حضرت اسحاق علیہ السلام ، (۶)حضرت یعقوب علیہ السلام ، (۷)حضرت نوح علیہ السلام ، (۸)حضرت داؤد علیہ السلام ، (۹)حضرت سلیمان علیہ السلام ، (۱۰)حضرت ایوب علیہ السلام ، (۱۱)حضرت اسماعیل علیہ السلام ، (۱۲)حضرت ادریس علیہ السلام ، (۱۳)حضرت ذی الکفل علیہ السلام ، (۱۴) حضرت یونس علیہ السلام ، (۱۵)حضرت زکریا علیہ السلام ، (۱۶)حضرت یحیٰ علیہ السلام اور (۱۷)حضرت عیسیٰ علیہ السلام
ان سترہ میں سے کچھ انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے قدرے تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور باقیوں کا اجمالی ذکر ہے۔
انبیائے سابقہ کے قصے بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اور دنیا میں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں، آپ نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچا دیا، مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھے تو آپ نے اللہ سے دعا کی ، اسی دعا پر یہ سورت ختم ہوتی ہے ، دعا یہ ہے:
”رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا الرَّحْمَ۔ٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ“
”اے میرے پروردگار! حق کا فیصلہ کردیجیے اور ہمارا پروردگار بڑی رحمت والا ہے ، اور جو باتیں تم بناتے ہو ان کے مقابلے میں اسی کی مدد درکار ہے۔“

۳۔ توحید:
توحید پر چھ دلائل ذکر کیے گئے ہیں:
آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، ہم نے دونوں کو جدا جدا کردیا۔
ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا ہے۔
ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے، تاکہ لوگوں کے بوجھ سے زمین ہلنے نہ لگے۔
ہم نے زمین میں کشادہ راستے بنائے، تاکہ لوگ ان پر چلیں۔
ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔
رات دن ، سورج اور چاند کا نظام بنایا، ہر ایک اپنے اپنے مدار میں انتہائی تیز رفتاری سے گھوم رہا ہے، نہ ان میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ خلط ملط ہوتے ہیں۔
(۲) سورۂ حج میں چھ باتیں یہ ہیں:​
۱۔ قیامت: (قیامت کی ہولناکیوں کے دل دہلانے والی منظر کشی کی گئی ہے۔)
۲۔ تخلیق انسان کے سات مراحل: (۱)مٹی (۲)منی (۳)خون کا لوتھڑا (۴)بوٹی (۵)بچہ (۶)جوان (۷)بوڑھا
۳۔ ملل اور مذاہب کے لحاظ سے چھ گروہ: مسلمان ، یہودی ، صابی(ستارہ پرست) ، عیسائی ، مجوسی (سورج ، چاند اور آگ کا پجاری) ، مشرک(بت پرست)
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلان حج: (حضرت ابرہیم علیہ السلام نے جبل ابی قیس پر کھڑے ہوکر حج کا اعلان کیا تھا ، یہ اعلان اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین و آسمان میں رہنے والوں تک پہنچادیا تھا۔)
۵۔ مؤمنوں کی چار علامات: (۱)اللہ کا خوف ، (۲)مصائب پر صبر ، (۳)نماز کی پابندی ، (۴)نیک مصارف میں خرچ کرنا
۶۔ دیگر احکامات: مثلا مناسک حج ، اقامتِ صلوۃ ، ادائیگیٔ زکوۃ ، جانوروں کی قربانی اور جہاد وغیرہ۔


اٹھارھواں پارہ​

اس پارے میں تین حصے ہیں:

۱۔ سورۂ مؤمنون (مکمل)
۲۔ سورۂ نور (مکمل)
۳۔ سورۂ فرقان (ابتدائی حصہ)


(۱) سورۂ مؤمنون میں سات باتیں یہ ہیں:

۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات
۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل
۳۔ توحید
۴۔ انبیاء کے قصے
۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات
۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ
۷۔ قیامت

۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات:
(۱)ایمان ، (۲)نماز میں خشوع ، (۳)اعراض عن اللغو ، (۴)زکوۃ ، (۵)پاکدامنی ، (۶)امانت داری ، (۷)نمازوں کی حفاظت۔

۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل:
(۱)مٹی (۲)منی (۳)جما ہوا خون (۴)لوتھڑا (۵)ہڈی (۶)گوشت کا لباس (۷)انسان (۸)موت (۹)دوبارہ زندگی

۳۔ توحید:
آغازِ سورت میں توحید کے تین دلائل ہیں: (۱)آسمانوں کی تخلیق ، (۲)بارش اور غلہ جات ، (۳)چوپائے اور ان کے منافع۔

۴۔ انبیائے کرام کے قصے:
(۱) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی کشتی کا ذکر۔
(۲) حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا ذکر۔
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کا تذکرہ۔

۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات:
(۱) اللہ سے ڈرتے ہیں ، (۲)اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، (۳)شرک اور ریا نہیں کرتے ، (۴)نیکیوں کے باوصف دل ہی دل میں ڈرتے ہیں کہ انھیں اللہ کے پاس جانا ہے۔

۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ:
ان کے انکار کرنے اور جھٹلانے کی نہ یہ وجہ ہے کہ آپ کوئی ایسی نئی بات لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیائے کرام لے کر نہ آئے ہوں ، نہ آپ کے اعلیٰ اخلاق ان لوگوں سے پوشیدہ ہیں ، اور نہ یہ سچ مچ آپ کو (معاذاللہ) مجنون سمجھتے ہیں اور نہ ان کے انکار کی یہ وجہ ہے آپ ان سے معاوضہ مانگ رہے ہیں۔ اصل وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ حق کی جو بات آپ لے کر آئے ہیں، وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہے ، اس لیے اسے جھٹلانے کے مختلف بہانے بناتے رہتے ہیں۔

۷۔ قیامت:
روزِ قیامت جس کے اعمال کا ترازو وزنی ہوگا وہ کامیاب ہے اور جس کے اعمال کا ترازو ہلکا ہوگا وہ ناکام ہے۔


(۲) سورۂ نور میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ سولہ احکام و آداب
۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں


۱۔ سولہ احکام و آداب:​
زانی اور زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں۔ (احادیث سے ثابت ہے کہ یہ حکم غیرشادی شدہ کے لیے ہے)
بدکار مرد یا عورت کو نکاح کے لیے پسند کرنا مسلمانوں پر حرام ہے۔
عاقل ، بالغ ، پاکدامن مرد یا عورت پر بغیر گواہوں کے زنا کی تہمت لگانے والے کی سزا اسی کوڑے ہیں۔
میاں بیوی کے لیے بجائے گواہوں کے لعان کا حکم ہے۔
جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقین نے بہتان لگایا جو کہ بہت بڑا بہتان تھا ، مسلمانوں کی روحانی ماں پر لگایا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے دس آیات میں اس واقعے کا ذکر فرمایا ہے ، ان آیات میں منافقین کی مذمت ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ آئندہ کبھی اس قسم کی بہتان تراشی میں حصے دار نہ بنیں اور حرمِ نبوت کی عفت و عصمت کا اعلان فرمایا گیا۔
کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کریں ، اجازت سے پہلے سلام بھی کرلینا چاہیے۔
آنکھوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
نکاح کی ترغیب۔
جو غلام یا باندی کچھ روپیہ پیسہ ادا کرکے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کے ساتھ یہ معاہدہ کرلیا کریں۔
باندیوں کو اجرت کے بدلے زنا پر مجبور نہ کریں۔
چھوٹے بچوں اور گھر میں رہنے والے غلاموں اور باندیوں کو حکم ہے کہ اگر وہ نماز فجر سے پہلے ، دوپہر کے قیلولے کے وقت اور نماز عشاء کے بعد تمھارے خلوت والے کمرے میں داخل ہوں تو اجازت لے کر داخل ہوں ، کیونکہ ان تین اوقات میں عام طور پر عمومی استعمال کا لباس اتار کر نیند کا لباس پہن لیا جاتا ہے۔
بچے جب بالغ ہوجائیں تو دوسرے بالغ افراد کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جب بھی گھر میں آئیں تو اجازت لے کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی آمد کی اطلاع دے کر آئیں۔
وہ عورتیں جو بہت بوڑھی ہوجائیں اور نکاح کی عمر سے گزر جائیں اگر وہ پردے کے ظاہری کپڑے اتار دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
گھر میں داخل ہوکر گھر والوں کو سلام کریں۔
اجازت کے بغیر اجتماعی مجلس سے نہ اٹھیں۔
اللہ کے رسول کو ایسے نہ پکاریں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔
۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں:

پہلی مثال میں مومن کے دل کے نور کو اس چراغ کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو صاف شفاف شیشے سے بنی ہوئی کسی قندیل میں ہو اور اس قندیل کو کسی طاقچے میں رکھ دیا جائے تاکہ اس کا نور معین جہت ہی میں رہے جہاں اس کی ضرورت ہے، اس چراغ میں جو تیل استعمال ہوا ہے وہ تیل زیتون کے مخصوص درخت سے حاصل شدہ ہے ، اس تیل میں ایسی چمک ہے کہ بغیر آگ دکھائے ہی چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی حال مومن کے دل کا ہے کہ وہ حصولِ علم سے قبل ہی ہدایت پر عمل پیرا ہوتا ہے پھر جب علم آجائے تو نور علی نور کی صورت ہوجاتی ہے۔

دوسری مثال اہل باطل کے اعمال کی ہے جنھیں وہ اچھا سمجھتے تھے، فرمایا کہ ان کی مثال سراب جیسی ہے، جیسے پیاسا شخص دور سے سراب کو پانی سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن جب قریب آتا ہے تو وہاں پانی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا ، یہی حال کافر کا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو نافع سمجھتا ہے، لیکن جب موت کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہوگا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کے اعمال غبار بن کر اڑچکے ہوں گے۔

تیسری مثال میں ان کے عقائد کو سمندر کی تہ بہ تہ تاریکیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ، جہاں انسان کو اور تو اور اپنا ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا، یہی حال کافر کا ہے جو کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں سرگرداں رہتا ہے۔

(۳) سورۂ فرقان کے ابتدائی حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
(۱) توحید
(۲) قرآن کی حقانیت
(۳) رسالت
(۴) قیامت

(۱) توحید:
اللہ وہ ذات ہے جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے ، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ، نہ کوئی شریک ہے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کرکے اسے ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے۔

(۲) قرآن کی حقانیت:
کافروں کی قرآن کے بارے میں دو قسم کی غلط بیانیاں ذکر کی ہیں:
1۔ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا افتراء اور اپنی تخلیق ہے جس میں کچھ دوسرے لوگوں نے تعاون کیا ہے۔
2۔ یہ گزشتہ قوموں کے قصے اور کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوالی ہیں۔

(۳) رسالت:
کفار کا خیال تھا کہ رسول بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہوتا ہے اور اگر بالفرض انسانوں میں سے کسی کو نبوت و رسالت ملے بھی تو وہ دنیاوی اعتبار سے خوشحال لوگوں کو ملتی ہے ، کسی غریب اور یتیم کو ہرگز نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید واضح دلائل سے کی ہے۔

(۴) قیامت:
روزِ قیامت کافروں کے معبودانِ باطلہ سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو بہکایا تھا یا یہ راستے سے خود بھٹکے تھے؟ تو وہ اپنے عبادت گزاروں کو جھٹلادیں گے اور ان کی غفلت کا اقرار کریں گے ، پھر ان کافروں کو بڑے بھاری عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔


انیسواں پارہ​

اس پارے میں تین حصے ہیں:

۱۔ سورۂ فرقان (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ شعراء (مکمل)
۳۔ سورۂ نمل (ابتدائی حصہ)

(۱) سورۂ فرقان کے بقیہ حصے میں چار باتیں یہ ہیں:

1۔ قیامت
2۔ توحید (آسمان ، زمین اور رات دن کا خالق اللہ ہی ہے۔)
3۔ رسالت (نبی کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔)
4۔ عباد الرحمٰن کی صفات (عاجزی سے چلنا ، جاہلوں سے اعراض ، راتوں کو عبادت ، جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنا ، خرچ کرنے میں اعتدال ، نہ فضول خرچی نہ بخل ، شرک سے اجتناب ، قتل ناحق سے بچنا ، زنا اور بدکاری سے پرہیز ، جھوٹی گواہی سے احتراز ، بری مجالس سے پہلوتہی ، کتاب اللہ سے متاثر ہونا ، نیک بیوی بچوں کی دعا اور یہ دعا کہ ہمیں ہادی اور مہتدی بنا)


(۲) سورۂ شعراء میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ سات انبیائے کرام کے قصے (حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت شعیب علیہ السلام)
۲۔ قرآن کی حقانیت: (اسے رب العالمین نے اتارا ہے ، روح امین حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر ، لوگوں کو ڈرانے اور متنبہ کرنے کے لیے ، واضح عربی زبان میں۔)
۳۔ شعراء کی مذمت کہ ان کے پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں ، یہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ،ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں ، البتہ وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال اختیار کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔

(۳) سورۂ نمل کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:​
(۱) قرآن کی عظمت
(۲) پانچ انبیائے کرام کا ذکر: (حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام۔ بالخصوص واقعۂ نمل ، واقعۂ ہدہد اور واقعۂ ملکہ سبا)

بیسواں پارہ​

اس پارے میں تین حصے ہیں:

۱۔ سورۂ نمل (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ قصص (مکمل)
۳۔ سورۂ عنکبوت (ابتدائی حصہ)

(۱) سورۂ نمل کے بقیہ حصے میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ توحید کے پانچ دلائل
(1) آسمان ، زمین ، بارش اور کھیتیوں کا خالق وہی ہے۔
(2) زمین ، نہریں ، پہاڑ اور سمندروں کا نظام وہی چلاتا ہے۔
(3) مجبور ، بے بس اور بیمار کی پکار اس کے علاوہ کوئی نہیں سنتا۔
(4) بحری اور بری تاریکیوں میں راستہ وہی دکھاتا ہے ، اسی نے ہواؤں کا نظام چلایا۔
(5) پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا ، دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا ، رازق بھی وہی ہے۔

۲۔ قیامت (صور پھونکا جانا ، پہاڑوں کا کا بادلوں کی طرح ہواؤں میں اڑنا ، روز قیامت سب کا جمع ہونا ، نیک لوگوں کو ان کی اچھائیوں کا انعام اور برے لوگوں کو ان کے کیے کی سزا کا ملنا)


(۲) سورۂ قصص میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا تفصیلی قصہ
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قارون کا قصہ

(۳) سورۂ عنکبوت کے ابتدائی حصے میں تین باتیں یہ ہیں:​
۱۔ توحید (مشرکین کے بت مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔)
۲۔ رسالت (آزمائش من جانب اللہ ضرور آتی ہے ، اس ضمن میں چند انبیائے کرام کے قصے مذکور ہیں۔)
۳۔ قیامت کا تذکرہ

اکیسواں پارہ​

اس پارے میں پانچ حصے ہیں:
۱۔ سورۂ عنکبوت (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ روم (مکمل)
۳۔ سورۂ لقمان (مکمل)
۴۔ سورۂ سجدہ (مکمل)
۵۔ سورۂ احزاب (ابتدائی حصہ)

(۱) سورۂ عنکبوت کے بقیہ حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ تلاوت اور نماز کا حکم
۲۔ نماز کی فضیلت (کہ یہ برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے)
۳۔ معاندین اور ان کی ہٹ دھرمیوں کا ذکر
۴۔ دنیا کی بے ثباتی


(۲) سورۂ روم میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ دو پیش گوئیاں:
۔۔۔۔ 1۔ نو سال کے اندر اندر روم کے اہل کتاب (عیسائی) ایران کے بت پرستوں کو شکست دے دیں گے۔
۔۔۔۔ 2۔ اسی عرصے میں مسلمان مشرکینِ قریش پر فتح کی خوش منارہے ہوں گے۔ (یہ بدر کی صورت میں ظاہر ہوئی)

۲۔ توحید کے ضمن میں اللہ کی عظمت کی سات نشانیاں:
۔۔۔۔ 1۔اشیاء کو اضداد سے پیدا کرنا (زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے)
۔۔۔۔ 2۔ انسان کی پیدائش مٹی سے
۔۔۔۔ 3۔ زوجین کی محبت
۔۔۔۔ 4۔ زمین و آسمان کی پیدائش
۔۔۔۔ 5۔ رات اور دن کی نیند اور روزگار کی تلاش
۔۔۔۔ 6۔ بجلی کی چمک ، بارش اور اس سے غلے کی پیداوار
۔۔۔۔ 7۔ زمین اور آسمان کا مستحکم نظام


(۳) سورۂ لقمان میں تین باتیں یہ ہیں:​

۱۔ توحید (اللہ کی قدرت کے چار دلائل)
۔۔۔۔ 1۔ بغیر ستون کا آسمان
۔۔۔۔ 2۔ مضبوط و محکم پہاڑ
۔۔۔۔ 3۔ رینگنے والے مویشی اور حشرات
۔۔۔۔ 4۔ برسنے والی بارش

۲۔ حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو پانچ وصیتیں:
۔۔۔۔ 1۔ شرک نہ کرو۔
۔۔۔۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چھوٹی بڑی چیز اور عمل کو آخرت میں سامنے لے آئیں گے۔
۔۔۔۔ 3۔ نماز ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، آزمائش میں صبر۔
۔۔۔۔ 4۔ عاجزی اختیار کرو ، تکبر سے بچو۔
۔۔۔۔ 5۔ معتدل چلو ، مناسب آواز میں بات کرو۔

۳۔ توحید کے ضمن میں یہ بتایا گیا کہ پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے:
۔۔۔۔ 1۔ بارش کہاں اور کتنی برسے گی؟
۔۔۔۔ 2۔ قیامت کب آئے گی؟
۔۔۔۔ 3۔ پیٹ میں بچہ کن اوصاف کا حامل ہے؟
۔۔۔۔ 4۔ موت کب اور کہاں آئے گی؟
۔۔۔۔ 5۔ انسان کل کیا کرے گا؟

(۴) سورۂ سجدہ میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی عظمت
۲۔ توحید (آسمان و زمین کا خالق وہی ہے ، ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے، پانی کے ایک حقیر قطرے سے مختلف مراحل طے کرانے کے بعد انسان کو وجود بخشا پھر اسے انتہائی پر کشش صورت اور متناسب قدوقامت والا بنایا۔)
۳۔ قیامت (مجرم اس دن سرجھکائے کھڑے ہوں گے، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی ، وہ دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے، مومنین جو دنیا میں اللہ کے لیے اپنی راحتوں کو قربان کرتے ہیں ، اللہ نے آخرت میں ان کے لیے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنھیں کوئی نہیں جانتا۔)
۴۔ رسالت (حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دیے جانے کا ذکر ہے۔)

(۵) سورۂ احزاب کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ زمانۂ جاہلیت کے تین غلط خیالات کی تردید کی گئی ہے:
۔۔۔۔ 1۔ ان کا خیال تھا کہ بعض لوگوں کے سینے میں دو دل ہوتے ہیں ، بتایا کہ دل تو بس ایک ہی ہوتا ہے ، یا اس میں ایمان ہوگا ، یا کفر ہوگا۔
۔۔۔۔ 2۔ کلماتِ ظہار کہنے سے بیوی ہمیشہ کے لیے حرام نہیں ہوتی بلکہ کفارہ دینے سے حلال ہوجائے گی۔
۔۔۔۔ 3۔ منہ بولا بیٹا شرعی احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔

۲۔ دو غزووں (غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ) کا ذکر ہے۔

بائیسواں پارہ​

اس پارے میں چار حصے ہیں:

۱۔ سورۂ احزاب (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ سبا (مکمل)
۳۔ سورۂ فاطر (مکمل)
۴۔ سورۂ یٰس (ابتدائی حصہ)

(۱) سورۂ احزاب کے بقیہ حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ ازواج مطہرات کے لیے سات احکام :
۔۔۔۔ 1۔نزاکت کے ساتھ بات نہ کریں۔
۔۔۔۔ 2۔ بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں۔
۔۔۔۔ 3۔ زمانۂ جاہلیت کی خواتین کی طرح اپنی زینت اور ستر کا اظہار کرتے ہوئے باہر نہ نکلیں۔
۔۔۔۔ 4۔ نماز کی پابندی کریں۔
۔۔۔۔ 5۔ زکوٰۃ دیا کریں۔
۔۔۔۔ 6۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔
۔۔۔۔ 7۔ قرآنی آیات کی تلاوت اور احادیث کا مذاکرہ کیا کریں۔
۲۔ مسلمانوں کی دس صفات
۳۔ نکاحِ رسول: جب حضرت زید بن حارثہ اور آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے درمیان نباہ نہ ہوسکا اور ان کے درمیان جدائی واقع ہوگئی تو اللہ کے حکم سے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا۔
۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا حکم

(۲) سورۂ سبا میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا قصہ
۲۔ اہل سبا کے غرور و تکبر کا واقعہ

(۳) سورۂ فاطر میں دو باتیں یہ ہیں:​
۱۔ توحید کے دلائل
۲۔ مسلمانوں کے تین گروہ (1۔وہ مسلمان جن کے گناہ زیادہ ہوں 2۔ نیکیاں اور گناہ برابر 3۔ نیکیاں زیادہ ہوں)


(۴) سورۂ یٰس کے ابتدائی حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ رسالت
۲۔ قریش کی مذمت

تیئیسواں پارہ​

اس پارے میں چار حصے ہیں:
۱۔ سورۂ یٰس (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ صافات (مکمل)
۳۔ سورۂ ص (مکمل)
۴۔ سورۂ زمر (ابتدائی حصہ)

(۱) سورۂ یٰس کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ حبیب نجار کا قصہ (ایک بستی والوں نے اپنے تین انبیاء کو جھٹلایا ، ان کی قوم کا ایک شخص جس کا نام حبیب نجار تھا نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو انھوں نے اسے شہید کردیا ، جنت میں جاکر بھی اس نے تمنا کی کاش! میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ مجھے کیسی نعمتیں ملی ہیں۔)
۲۔ اللہ کی قدرت کے دلائل (1۔مردہ زمین جسے بارش سے زندہ کردیا جاتا ہے۔ 2۔لیل و نہار اور شمس و قمر کا نظام۔ 3۔کشتیاں اور جہاز جو سمندر میں چلتے ہیں۔)
۳۔ قیامت (محشر کی ہولناکیاں ، صور پھونکے جانے کا تذکرہ ، اس دن مجرموں کے مونہوں پر مہر لگادی جائے گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے۔)

(۲) سورۂ صافات میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ جہنمیوں کا باہم لعن طعن اور جنتیوں کا خوشگوار مکالمہ
۲۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے (حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوتِ توحید ، انھیں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم اور اس کی تعمیل ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا قصہ ، حضرت الیاس علیہ السلام کا قصہ جنھیں شام میں ایک ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا جو "بعل" نامی بت کی عبادت کرتی تھی، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی شہوت پرستی کا قصہ ، حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں ہونے کا قصہ۔)

(۳) سورۂ ص میں دو باتیں یہ ہیں:​

۱۔ توحید (تمام انسانوں اور موت و حیات کے پورے نظام کے لیے ایک اللہ ہی کافی ہے۔)
۲۔ رسالت (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ، قریش کی مذمت ، تسلی کے طور پر حضرت داؤد علیہ السلام کے شکر کا قصہ اور حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا قصہ اور دیگر انبیائے کرام کے قصے)

(۴) سورۂ زمر کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی عظمت
۲۔ توحید (اللہ تعالیٰ انسان کو ماں کے پیٹ میں تین تاریکیوں میں پیدا فرماتے ہیں۔ مشرک کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کے کئی آقا ہوں اور موحد کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کا ایک ہی آقا ہو۔ )


چوبیسواں پارہ

اس میں تین حصے ہیں :

1 -سورہ زمر ( بقیہ حصہ )
2 -سورہ مؤمن (مکمل )
3 -سورہ حم السجدة ( ابتدائی حصہ )

سورہ زمر کے بقیہ حصے میں کئی باتیں ہیں
1 - الله کی ربوبیت کا بیان
آسمان وزمین تمام کا خالق صرف اللہ ہی ہے اس کے قائل تمام انسان ہیں
2 - الله کی رحمت کی وسعت کا بیان
انسان کو کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے
3- جہنمیوں اور جنتیوں کے جہنم اور جنت میں داخل ہونے کی کیفیت کا بیان
سورہ مؤمن میں کئی باتوں کا بیان ہے
1- مومن کا بیان
جب موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش فرعون کے دربار میں ہورہی تھی تو ایک مومن جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تها اس نے کہا اتقتلون رجلا ان یقول ربی الله اس فرعون اور اس کے درباروں کو موسی علیہ السلام کے قتل سے ڈرایا اور کہا کہ اس کا انجام بہت برا ہوگا
2- فرعون کے کبر و غرور کا بیان ہے کہ اس نے رب العزت کو دیکھنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے ہامان کو ایک محل کی تعمیر کا حکم دیا
3- الله سے اعراض کرنے والوں کی سزا کا بیان ہے سیدخلون جهنم داخرین
4- انسان کی تخلیق کا بیان
انسان کبھی مٹی تها پهر نطفہ بنا پهر علقہ بنا پهر بچہ بنا پهر جوان ہوا پهر بوڑھا ہوا پهر مرا
سورہ حم السجدة میں کئی باتیں ہیں
1 -آسمان و زمین کی تخلیق
اللہ نے زمین اور اس کے اندر کی ساری چیزیں چار دن میں بنایا اور آسمان کو دو دن میں بنایا
2- کافروں کی شرارت کا ذکر کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو یہ لوگ شور مچا تے تاکہ لوگ تلاوتِ قرآن مجید کو نہ سن سکیں
3- داعي کا بیان کہ اس سے بہتر بات کسی کی نہیں ہوسکتی اور داعی کو کون سا اسلوب استعمال کرنا چاہیے اس کا بیان ہے


پچیسواں پارہ

اس میں کل پانچ حصے ہیں

1 - حم السجدة (بقیہ حصہ)
2 - سورہ شوریٰ (مکمل)
3- سورہ زخرف (مکمل)
4- سورہ دخان (مکمل )
5- سورہ جاثیہ (مکمل )

حم السجدة کے بقیہ حصے اس بات کا بیان ہے کہ اللہ ہی عالم الغیب ہے جیسے قیامت کا علم شگوفے میں کیا ہے اس کا علم حمل میں کیا ہے اور وضع حمل کب ہوگا ان تمام باتوں کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے
سورہ شوریٰ میں کئی باتیں ہیں

1 - الله تعالى تمام خزانوں کا مالک ہے له مقالید السموات والارض یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر

2 - الله کی قدرت کی بہت ساری نشانیاں ہیں بارش کا نزول، آسمان وزمین کی تخلیق جانوروں کی پیدائش سمندر کی پیٹھ پر کشتیوں کا چلانا وغیرہ

3- اولاد دینے کی طاقت صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے وہ جسے چاہے صرف لڑکی دے جسے چاہے لڑکا دے اور جسے چاہے دونوں دے اور جسے چاہے بانجھ کردے

سورہ زخرف میں بھی کئی باتوں کا بیان ہے

1- گزشتہ اقوام کا اپنے آباء و اجداد کی تقليد اور اس کے نبی کی تکذیب

2- موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ

3- جنتیوں اور جہنمیوں کا بیان کہ یہ دونوں اپنے اپنے ٹھکانے میں کس طرح زندگی گزار رہے ہوں گے

سورہ دخان میں کئی باتیں ہیں

1- قرآن مجید کے نزول کا بیان

2- شب قدر کا تذکرہ کہ اس میں تمام مضبوط امر کا فیصلہ ہوتا ہے

3- اہل مکہ کی ہٹ دھرمی کہ نبوت کی نشانی دیکھنے کے باوجود اپنے کفر پر اڑے رہے اور کہا کہ یہ تو سکھایا ہوا مجنوں ہے

4- شجرة الزقوم کا بیان کہ یہ مجرموں کھانا ہوگا

سورہ جاثیہ میں بھی بہت سی باتیں ہیں

1- الله کی نشانیوں کا تذکرہ ہے کہ آسمان و زمین، انسان، جانور، رات و دن کا آنا جانا بارش کا نزول اور ہواؤں کا اللہ کی قدرت کاملہ کی نشانی ہیں

2- الله کی آیات کا مذاق اڑانے والے قیامت کے دن فراموش کر دیئے جائیں گے اور ان پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گیٰ

چھبیسواں پارہ

اس میں کل چھ حصے ہیں

1- سورة الأحقاف مکمل
2- سورة محمد مکمل
3- سورة الفتح مکمل
4- سورة الحجرات مکمل
5- سورة ق مکمل
6- سورة الذاريات ابتدائي حصہ

سورہ احقاف میں کئی باتیں مذکور ہیں

1- والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بیان ہے

2- حمل کی أقل مدت کا بیان کہ وہ چھ ماہ ہے

3- قوم عاد کی شرارت اور ان پر آنے والے عذاب کا تذکرہ ہے کہ ان پر ایسی ہوا چلی کہ اس نے سب کو تہ و بالا کردیا

4- جنوں کے ایمان لانے اور اپنی قوم میں داعی کی حیثیت سے کام کرنے کا بیان ہے

سورہ محمد میں بہت سی باتیں ہیں

1- جنت کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایسی نہر ہے کہ جس کا پانی گدلا نہیں ہوتا دودھ کی نہر کہ جس کا نہیں بدلتا شراب کی نہر خالص شہد کی نہراور ہر قسم کے پهل وغیرہ

2- آدمی جب مال پا جاتا ہے یا سرداری اور منصب کا مالک ہوجاتا ہے تو رشتہ کو نہیں نبھاتا ہے

3- الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اعمال کی بربادی کا ذریعہ ہے

سورہ فتح کی بعض باتیں یہ ہیں

1- اس سورت میں فتح مبین سے مراد یا تو صلح حدیبیہ ہے یا فتح مکہ مکرمہ جیسا کہ مفسرین کے یہاں اختلاف ہے

2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے اور آپ کی تعظیم و توقیر اور مدد کرنے کا بیان ہے

3- صلح حدیبیہ کے بعض حالات کا بیان

4- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب کا تذکرہ کہ آپ مسجد حرام کی زیارت کریں گے

5- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض عمدہ صفات کا بیان

سورہ حجرات میں کئی باتیں ہیں

1- نبوت و رسالت کا مقام

2- دو جماعتوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں اصلاح کی کوشش اور بغاوت کرنے والی جماعت کے مدمقابل کھڑے ہو نا یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آ جائے

3- سماج کو تباہ کرنے والی بعض صفات کا بیان کہ ان سے بچنا چاہئے جیسے غیبت چغلی بدگمانی سخریہ برے القاب سے خطاب وغیرہ

سورہ ق کی چند باتیں یہ ہیں

1- قیامت کا بیان کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا

2- قوم نوح أصحاب الرس ثمود عاد فرعون اور اخوان لوط کی تکذیب کا بیان ہے

3- جہنم کی کشادگی اور جنت کی قربت کا تذکرہ ہے

4- آخرت کے میدان میں کس طرح لائے جائیں گے اور مشرکین کو کیسے عذاب شدید میں ڈالا جائے گا اس کا بیان ہے

سورہ ذاریات کے ابتدائی حصے کی بعض باتیں یہ ہیں

1- حساب وكتاب ہوکر رہیگا اس سے مفر نہیں ہے

2- متقیوں کے بعض صفات کا بیان کہ وہ رات میں بہت کم سوتے ہیں سحر کے استغفار کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سائل اور محروم کا حق فراموش نہیں کرتے

3- ابراهيم عليه السلام کے پاس مہمانوں کے آنے اور ان کی ضیافت کا تذکرہ ہے


ستائیسواں پارہ

اس میں سورہ ذاریات کا بقیہ حصہ ہے جس میں فرعون اور اس کے اہل کاروں کے دریا میں ڈبوئے جانے قوم عاد کے ہوا کی نذر کئے جانے اور قوم ثمود اور قوم نوح علیہ السلام کے عذابوں میں گرفتار کئے جانے کا بیان ہے
سورہ طور میں کئی باتیں ہیں

1- قیامت کا بیان ہے

2- جنتی جنت میں کس طرح گھومیں پھریں گے اور ان کا اعتراف کیسا ہوگا اس کا تذکرہ ہے

3- نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اہل مکہ نے کیا کیا کہہ کر اذیتوں کا شکار کیا اس کی جانب اشارہ ہے

سورہ نجم میں کئی باتیں مذکور ہیں

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی حالت میں دیکھا ابتداء نبوت میں اور معراج کے موقع پر سدرة المنتہی کے پاس

2- انسان کی کوشش رائیگاں نہیں جاتی ہے شرط یہ ہے کہ وہ اپنی کوشش میں مخلص ہو

سورہ قمر میں کئی باتیں ہیں

1- چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نبوت کی نشانی اور کهلا ہوا معجزہ تھا

2- پورا قرآن مجید انسانوں کے لئے نصیحت ہے اسی لئے اسے بہت آسان بنا دیا گیا ہے تاکہ ہر شخص سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کر سکے

3- مختلف قوموں کے دنیا میں عذاب میں مبتلا ہونے اور آخرت کے دن پریشانی میں گهر نے کا بیان ہے

سورہ رحمن میں بھی کئی باتوں کا بیان ہے

1- قیامت کے دن حساب وكتاب کے لئے ترازو قائم کیا جائے گا

2- الله نے انسانوں کو دنیا میں بے شمار نعمتیں دی ہیں اور اچھے لوگوں کو آخرت میں مختلف نعمتوں سے نوازے گا ان کا تذکرہ کرکے بار بار یہ سوال کیا ہے؟ کہ اے انسانو اور جنو تم سب رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟

سورہ واقعہ کی بعض باتیں یہ ہیں

1- قیامت کس طرح واقع ہوگی اس کی ہلکی سی جھلک بتائی گئی ہے

2- قیامت کے روز لوگ تین زمرے میں ہونگے سابقین اولین، اصحاب الیمین اور اصحاب المشئمه یعنی جہنمی لوگ

3- الله کی قدرت کاملہ کا بیان نطفہ سے بچے کی پیدائش، کهیت میں پودے کا أ گانا، آسمان سے بارش نازل کرکے اسے پینے کے لئے میٹھا بنانا، درختوں سے آگ پیدا کرنا یہ سب اللہ ہی کی کاریگری اور قدرت ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے

سورہ حدید کی بعض باتیں یہ ہیں

1- الله کی وحدانیت کا بیان

2- فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والوں اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے

3- قیامت کے دن مومنوں کو ایک نور دیا جائے گا جس کی روشنی میں وہ چل رہے ہوں گے اور منافقین اس نور سے محروم ہونگے

4- لوہا کے فوائد کا بیان ہے کہ اس سے ہتھیار بناتے ہو اور دوسرے منافع حاصل کرتے ہو جیسے : گهر بنانا، گاڑی بنانا پل وغیرہ

اٹھائیسواں پارہ

اس میں کل 9 سورتیں ہیں

سورہ مجادلہ

خولہ بنت ثعلبہ رضي الله عنها کے شوہر نے ان سے ظہار کر لیا جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عورت اپنے شوہر کے لئے حرام ہوگئی، خولہ پریشان ہوئی کہ اب کیا ہو گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئ اور اپنی فریاد پیش کیا اور بار بار پیش کیا ہر بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہی فرماتے رہے کہ تو اپنے شوہر کے لئے حرام ہوگئی آخر اس عورت نے اپنا رب کی طرف اٹھا دیا تو رب نے فوراً لبیک کہا

 اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ سورت نازل کی جس میں ظہار کے کفارہ کا بیان ہے یا تو ایک غلام آزاد کیا جائے یا مسلسل دو ماہ کے روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے

سورہ حشر

بنونضیر قبیلے نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دھوکے سے قتل کرنا چاہا تو آپ نےان پر چڑھائی کیا کئی دنوں کے محاصرے کے بعد وہ لوگ وہاں سے نکلنے پر تیار ہوئے چنانچہ انہیں جلاوطن کیا گیا اور یہ پہلی جلاوطنی تھی جو خیبر کی جانب ہوئی

 پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ملک شام کی طرف نکال دیا گیا

2- ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مہمان رسول کی ضیافت کا بیان اور میزبان کی تعریف ہے

3- الله تعالى کے بعض صفات کا بیان ہے

سورہ ممتحنہ

اس سورت میں کئی باتیں ہیں

1- مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اسلام دشمنوں سے دوستی نہ کریں کیونکہ ان سے اسلام کوہمیشہ تکلیف ہی پہنچی ہے

2- جب عورتیں ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا گیا کہ ان سے اس بات پر بیعت لیں کہ وہ شرک نہیں کریں گی چوری نہیں کریں گی زنا نہیں کریں گی اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور بہتان تراشی نہیں کریں گی

سورہ صف

1- جس چیز کی نصیحت کی جائے اس پر پہلے عمل کیا جائے ورنہ داعی مجرم ہوگا

2- جہاد کرنے والے اللہ کی نگاہ میں محبوب ہیں

3- کوئی کتنی ہی طاقت صرف کردے لیکن نور الہی یعنی اسلام مٹا نہیں سکتا ہے

سورہ جمعہ

1- جمعہ کی فضیلت اور اس کے بعض آداب کا بیان ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے تھے مال تجارت آیا لوگ آپ کو قیام کی حالت میں چهوڑ کر چلے گئے جس پر سورت نازل ہوئی

2- بے عمل علماء کا بیان کہ وہ مثل گدھے کے ہیں جس پر بوجھ لدا ہوا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ بوجھ کس چیز کا ہے

سورہ منافقوں

اس بات کا بیان ہے کہ منافقین رسالت کی گواہی دینے میں جهوٹے ہیں نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی چالبازیوں سے ہشیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے

نیز غزوہ احد کے موقع پر رئیس المنافقين عبد اللہ بن ابی نے یہ
کہا تھا کہ مدینہ میں ہم رہیں گے نبی اور مسلمان نہیں، عزت والے ہم ہیں نبی اور مسلمان نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اس سورت میں دیا ہے

2- مومنوں کو اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ کہیں یہ مال اور اولاد تمہاری بربادی کا ذریعہ نہ بن جائیں

سورہ تغابن

قیامت کے دن جنتی جنت میں رہتے ہوئے غبن کریں گے وہ اس طرح سے کہ وہ لوگ جو جہنم میں چلے گئے ان کا بھی گهر جنت میں بنایا گیا ہے اب ان کے جہنم میں جانے کی وجہ سے جنت والاگهر خالی رہے گا تو جنتی اس پر قبضہ جما لیں گے اسی وجہ سے اس دن کا ایک نام یوم التغابن بهى پڑ گیا

2- مومنوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں تمہیں ان سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے

سورہ طلاق

1- طلاق کے بعض مسائل کا بیان

2- مختلف قسم کی عورتوں کی عدت کا بیان کہ نابالغہ اور آئسہ کی عدت تین ماہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل وغیرہ

3- متقیوں کو پریشانی سے نجات ملے گی بے حساب رزق ملے گا ان کے معاملات آسان ہونگے ان کے گناہ مٹائے جائیں گے اور اجرعظیم ملے گا

سورہ تحریم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زینب بنت جحش کے پاس کچھ دیر ٹھہر تے اور وہاں شہد پیتے حضرت حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے وہاں معمول سے زیادہ ٹھہر نے سے روکنے کے لئے اسکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی نبی آئیں تو وہ ان سے یہ کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ نے فرمایا :

 میں نے تو زینب کے صرف شہد پیا ہے اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا اس پر یہ سورت نازل ہوئی

2- دو جہنمی عورتوں کا بیان ہے اور یہ دونوں نبی کی عورتیں ہیں (نوح، لوط علیہما السلام) اور ان کا کافروں کے لئے بطور مثال ہے اور مومنین کے لئے دو عورتوں کی مثال بیان کی گئی ہے ایک فرعون کی بیوی آسیہ اور دوسرے عمران علیہ السلام کی بیٹی مریم

انتیسواں پارہ

سورہ ملک

1- توحيد کا بیان
2- جہنم میں داخل ہونے والوں اور داروغہ جہنم کے درمیان مکالمہ

سورہ قلم

1- باغ والوں کا واقعہ کہ جن کا باغ غرباء ومساکین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کے نتیجے میں باغ آگ کی نذر ہوگیا
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عالی کا بیان ہے

سورہ الحاقة

1- مختلف قوموں کے عذاب میں گرفتار کئے جانے کا بیان
2- قیامت کے وقوع کا بیان اور اچھے لوگوں کے جنت میں داخل ہونے اور بروں کے جہنم میں جانے کا بیان اور اسباب کا تذکرہ

سورہ المعارج

1- قیامت کے وقوع کا انداز
2- انسانوں کے بعض صفات کا بیان
3- جنتیوں کے صفات کا بیان

سورہ نوح

1- نوح عليه السلام کے طویل تبلیغ اور ان کے طریقہ دعوت کا بیان
2- استغفار کے فوائد کہ بارش نازل ہوگی مال میں اضافہ ہوگا نرینہ اولاد ملے گی باغات اور نہریں حاصل ہونگی
3- ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر بتوں کا بیان کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ ہم انہیں نہیں چهوڑ سکتے

سورہ الجن

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وادی نخلہ میں گئے نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے جنوں کی ایک جماعت کا گزر ہوا تو انہوں نے قرآن مجید سنا اور ایمان لے آئے
2- مسجدیں صرف اور صرف اللہ کی عبادت کے لئے ہیں ان میں کسی اور کو نہیں پکارا جائے گا

سورہ المزمل

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ پوری رات عبادت کرتے تھے چنانچہ آپ پابندی لگائی گئی کہ پوری رات عبادت نہ کریں
2- قرآن مجید میں سے جو آسان ہو اسے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے نماز قائم کرنے زکات ادا کرنے اور قرض حسنہ دینے کا حکم ہے

سورہ مدثر

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا گیا کہ آپ تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے رب کی کبریائی بیان کریں
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی سے انکار کرنے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے اور پھر جہنم کی بعض صفات کا بیان ہے
3- جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ اور جہنم میں داخل ہونے کے اسباب کا بیان کہ ہم نمازی نہیں تھے مسکینوں کو کھانا نہیں کہلاتے تھے ہم گپ ہانکا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے

سورہ القیامۃ

1- جب قیامت قائم ہوگی انسان حیران ہو گا اور کہے گا این المفر کہاں بھاگ کر جاؤں لیکن وہاں نہ کوئی بهاگ سکتا ہے اور نہ تو رب کی پکڑ سے بچ سکتا ہے
2 - جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ جلدی جلدی پڑهتے کہ کہیں بهول نہ جاؤں اللہ نے فرمایا : اے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آپ جلدی نہ کریں بلکہ غور سے سنیں ، پڑهانا ہماری ذمہ داری ہے
3- قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہونگے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہونگے اور بہت سے چہرے پژمردہ ہونگے

سورہ دهر

1- انسانوں پر ایک ایسا بھی دور آیا ہے کہ جب وہ کچھ بھی نہ تھا پھر اللہ عدم سے وجود بخشا
2- جنتیوں اور جہنمیوں کا بیان ہے
3- نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو آنے والی اذیتوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے ا صبح و شام رب کے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کا حکم دیا گیا ہے

سورہ مرسلات

1- قیامت کا بیان اور اس کے وقوع کے وقت آسمان پہاڑ اور ستاروں کی کیا حالت ہوگی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے

2- قیامت کے وقوع، مجرموں کو دبوچ لئے جانے، انسان کی پیدائش، زمین کا بنایا جانا اس میں مضبوط پہاڑوں کا رکھنا اور پھر جہنم کے شعلوں کا بیان کافروں اور مشرکوں کا قیامت کے دن نا بولنا اور ان کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بار بار یہ کہا گیا کہ ان واضح چیزوں کے جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے اور یہ بات تقریباً دس مرتبہ دہرائی گئی ہے اور آخر میں کہا گیا کہ اگر تم ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتے تو پھر کس بات پر ایمان لاؤ گے؟

تیسواں پارہ*

*’’سورۃ النبا‘‘*
الحمدللہ آج ہم تیسویں پارے کا خلاصہ پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، جس کی ابتدا سورئہ نباء سے ہوتی ہے جس میں قیامت کے متعلق کافروں کے شک اور تردد کی نفی کی گئی اوربتایا گیا کہ قیامت کا آنا یقینی ہے، قیامت کا نقشہ کھینچا گیا، سرکشوں کےلئے عذاب ہے جس میں اضافہ ہوتا رہے گا، نیک لوگوں کےلئے انعام و اکرام ہے، اس دن فرشتے میدان حشر میں صف باندھے کھڑے ہوں گے، بغیر اجازت کوئی بول نہ سکے گااور کفار تمنا کریں گے کاش، وہ مٹی ہوتے۔

*سورۃ النازعات:*
اس سورت میں بھی قیامت کا ذکر ہے اور کفار و مشرکین کا کہنا ہے کہ کیا مرنے کے بعد پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے، اگر ایسا ہوا تو یہ بہت افسوسناک ہے، جب کہ قیامت کے دن ان کے دل دھڑک رہے ہوں گے، دہشت، ذلت اور ندامت کی وجہ سے ان کی نظریں جھکی ہوں گی۔ فرعون کا ذکر کر کے بتایا کہ وہ بھی قیامت کا منکر تھا، اس کا انجام یاد رکھو اور جس دن یہ قیامت کو دیکھیں گے تو ان کو ایسا معلوم ہو گا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول دنیا میں رہے۔

*سورئہ عبس:*
رحمت عالمؐ ایک موقع پر سرداران قریش کو دعوت اسلام دینے میں مصروف تھے کہ آپؐ کے ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن مکتومؓ آ گئے اور انہوں نے آپؐ کی توجہ اپنی طرف پھیرنی چاہی جسے آپؐ نے ناپسند فرمایا، اس موقع پر سورئہ عبس نازل ہوئی جس میں نابینا صحابی کی دلجوئی اور توجہ دینے کا کہا گیا۔ قرآن نصیحت ہے، ناشکری نہیں کرنی چاہئے، ایمان والوں کے چہرے قیامت کے دن روشن، ہنسنے والے ہوںگے جب کہ کفر کرنے والوں کےچہرے سیاہ ہوں گے۔

*سورۃ التکویر*
قیامت کا منظر کھینچا گیا کہ کائنات کی کوئی بھی چیز محفوظ نہ ہو گی، سورج، ستارے، پہاڑ اور سمندر، ریت کے گھروندے ثابت ہوںگے، پھر اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں کھا کر قرآن کی حقانیت ا ور نبی اکرمؐ کی نبوت و رسالت کو بیان فرمایا۔ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے جو تمام عالم کےلئے نصیحت ہے۔

*سورۃ الانفطار:*
قیامت میں کائنات کی جو حالت ہو گی اس کو بیان کر کے انسان سے شکوہ کیا گیا کہ کس چیز نے تجھے اپنے پروردگار کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ اس کے احسانات بھلا کر معصیت اور ناشکری پر اتر آیا ہے۔
قیامت میں دو قسم کے لوگ برابر ہوں گے، یعنی نیک جن کا ٹھکانہ جنت ہے اور فجار یعنی نافرمان، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔

*سورۃ المطففین:*
ناپ تول میں کمی و بیشی کرنے والے جن کے دینےکے پیمانے اور ہوتے ہیں، لینے کے پیمانے اور ہوتےہیں، اس طرح انسانوں کے حقوق غصب کرتے ہیں، ان کےلئے ہلاکت کی وعید ہے۔
قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کر کے بتایا گیا کہ دنیا میں مجرم اور سرکش نیک لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے، قیامت میں نیک لوگ ان پر ہنسیں گے۔

*’’سورۃ انشقاق:‘‘*
قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور جب حساب لیا جائے گا تو کچھ لوگوں کو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ خوش ہوں گے اور جنت میں جائیں گے اور جن کے نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے سے دیئے جائیں گے وہ جہنم میں جائیں گے۔

*’’سورۃ البروج:‘‘*
نجران کے حق پسند اور عیسائی اہل ایمان کو یہودی ظالم بادشاہ ذونواس نے آگ سے بھرے گڑھے میں پھنکوا دیا، ساحر، راہب اور نوجوان لڑکے کا قصہ منقول ہے جس کی استقامت دیکھ کر ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور خندقوں والی دہکتی آگ میں ڈالے گئے، پھر فرمایا گیا کہ اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے، جب کوئی اس کے عذاب کی گرفت میں آ جائے تو بچ نہیں سکتا۔

*’’سورۃ الطارق:‘‘*
اللہ نے آسمان کی، اور رات کو چمکنے والے ستارے کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہر انسان پر نگہبان فرشتہ مقرر ہے، انسان اپنی تخلیق پر غور کرے، اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں انسانی چال کچھ نہیں ہے، کفار کو ڈھیل دی جا رہی ہے
بالآخر گرفت میں آئیں گے۔

*’’سورۃ الاعلیٰ:‘‘*
اللہ کی تسبیح و تحمید کر کے بتایا کہ انسان کو پرکشش صورت سے نواز کر ایمان و سعادت کا راستہ دکھایا، قرآن نصیحت ہے جوکہ یاد کرنےکےلئے آسان ہے، کامیابی کے تین اصول ہیں تزکیہ، ذکر الٰہی اور نماز جو ان پر کاربند ہو وہ کامیاب ہے، پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی یہی ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوئے۔

*’’سورۃ الغاشیہ‘‘*
غاشیہ یعنی ڈھانپ لینے والی قیامت کا نام ہے کہ اس کی ساری ہولناکیاں مخلوق کو ڈھانپ لیں گی، اس دن کفارکےچہرے جھلسےہوںگے جب کہ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے، اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین کی تخلیق پر غور کرو، آپؐ کے ذمے نصیحت کرنا ہے اور ہم حساب لیں گے۔

*’’سورۃ الفجر:‘‘*
فجر کے وقت، جفت و طاق، دس راتیں اور جب رات جانے لگے گواہ ہیں عاد، ثمود، فرعون تباہ ہوئے، یتیموں کے ساتھ ظلم اور حقارت، مسکینوں کی نہ خود مدد کرنا اور نہ ترغیب دینا، میراث غصب کرنا، مال کی محبت میں اندھا ہونا ان برائیوں میں مبتلا ہو کر انسان زمین پر فساد پھیلاتا ہے اور جہنم کا ایندھن بنتا ہے جب کہ نیک عمل لوگوں کے لئے جنت کی بشارت ہے۔

*’’سورۃ البلد‘‘*
چند قسموں کو ثبوت کے طورپر پیش کر کے کہا کہ آرام و راحت صرف قانون الٰہی کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے، انسان کی شکرگزاری یہ ہے کہ انسانوں کو غلامی، قید سے چھڑائے، یتیموں، مسکینوں کی مدد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا اور آپس میں حق کی وصیت اور مشکلات پر صبر کرنا۔

*’’سُورَۃُالشمس‘‘*
سورج، چاند، دن، رات، آسمان، زمین اور نفس انسانی کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان اپنے رب سے ڈرے اور نفس کا تزکیہ کرے توکامیاب ہے ورنہ ناکام جس طرح قوم ثمود نے نافرمانی کی اور ہلاک ہوئی۔

*’’سورۃ اللیل‘‘*
جو لوگ قرآن کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، تقویٰ اختیار کرتے ہیں، بخل نہیں کرتے، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، وہ آخرت میں کامیاب ہیں اور اس کے برعکس لوگ ناکام ہیں، جہنم کا ایندھن ہیں۔

*’’سورۃ الضحٰی‘‘*
اللہ نے اپنے حبیبؐ سے قسم کھا کر فرمایا کہ آپؐ کے رب نے نہ تو آپؐ کو چھوڑا ہے اور نہ ناراض ہے، آپؐ کی آخرت بہتر ہے، اللہ آپؐ کو غنی کر دے گا، اللہ ہی نے آپ کو ٹھکانہ دیا، راستہ دکھایا تو یتیم پر سختی نہ کریں، سائل کو نہ جھڑکیں اور رب کی نعمتوں کا تذکرہ کریں۔

*سورۃ الانشراح:*
آپؐ کا سینہ کھول دیا، بوجھ اٹھا دیا اور آپؐ کا ذکر ہمیشہ کےلئے بلند کر دیا، شکر، عبادت اور اللہ کی طرف رغبت کریں۔

*سورۃ التین:*
چار قسمیں کھا کر فرمایا کہ انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا، ایمان اور اعمال صالحہ سے عظمت حاصل کرتا ہے جب کہ کفر اور تکذیب سے ذلت کی گہرائی میں گر جاتا ہے۔

*سورۃ العلق*
ابتدائی پانچ آیات سب سے پہلی وحی ہے جو آپؐ پر غار حرا میں نازل ہوئی، انسان کی تخلیق اور قرأت اور کتابت کے ذریعے تمام مخلوقات پر فضیلت کا ذکر ہے، مال اور دولت، غرور و سرکشی کا ذریعہ ہے، وقت کے فرعون ابوجہل کا ذکر ہے۔

*سورۃ البینہ:*
آپؐ کی ذات عالیہ خود رسالت کی ایک روشن دلیل ہے، کوئی عمل بغیر ایمان کے اور ایمان بغیر اخلاص کے معتبر نہیں، ہر نبی نے اپنی امت کو اسی بنیاد پر دعوت دی، کفر و شرک کرنے والےبدترین مخلوق ہیں، ہمیشہ جہنم میں رہیں گے جب کہ ایمان اور اعمال صالحہ والے بہترین مخلوق ہیں، ان کو جنت کی ابدی نعمتیں اور رب کی رضا ہے۔

*’’سورۃ الزلزال‘‘:*
قیامت اور خوفناک زلزلے کا ذکر ہے، زمین سب اگل دے گی، ذرہ بھر بھی نیکی ہویا بدی ظاہر ہو جائے گی۔

*سورۃ العادیات:*
گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہے جب کہ انسان ناشکرگزاری اور مال کی شدید محبت میں گرفتار ہے، موت کے بعد ساری ناشکریوں اور نافرمانیوں کی پاداش میں سخت سزا ہو گی۔

*سورۃ القارعہ‘‘:*
قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے، جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا من پسند زندگی میں ہوں گے اور ہلکا ہو گا تو عذاب ہو گا۔

*سورۃ التکاثر:*
مال و دولت کی کثرت انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہے جب کہ اسے نعمتوں کا جواب دینا ہے اور سزا بھگتنی ہے۔

*سورۃ العصر:*
ایمان، عمل صالح اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرنے والوں کے علاوہ تمام لوگ خسار ے میں ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اگر پورا قرآن نازل نہ ہوتا تو بھی صرف یہ سورت انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی تھی۔

*سورۃ الھمزہ:*
منہ پر برا بھلا کہنے والے، غیبت کرنے والے، مال و دولت سمیٹ سمیٹ کر جمع کرنے والوں کے لئے ہلاکت کی وعید ہے اور یہ لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

*’’سورۃ الفیل:‘‘*
جس سال آپؐ کی ولادت باسعادت ہوئی اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا، اس کو عبرت کے طور پر بتایا کہ لوگ شعائراللہ کی توہین سے باز رہیں۔

*سورۃ القریش:*
قریش کو اللہ نے اپنی نعمتیں یاد دلائیں تاکہ خالص اللہ کی عبادت کریں جس نے ان کو عزت عطا کی، بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امن عطا کیا۔

*’’سورۃ الماعون:‘‘*
روز جزا کو جھٹلانے والے، یتیموں کو دھکے دیتے ہیں، مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے، نماز سے غافل ہیں، ریاکاری کرتے ہیں، عام استعمال کی چیز مانگنے پر نہیں دیتے۔

*سورۃ الکافرون:*
آپؐ اعلان فرما دیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کر سکتے، ایمان اور کفر علیحدہ علیحدہ ہیں، تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔

*’’سورۃ النصر‘‘*
اس سورت میں بشارت ہے، خوشخبری ہے اللہ کی مدد کی، فتح مکہ کی لیکن اس موقع پر جشن نہیں منانا بلکہ اللہ کی حمد و تسبیح اور استغفار کرنا ہے۔

*ؕسورۃ اللہب*
ابولہب اور اس کی بیوی کی اسلام دشمنی کی وجہ سے ہلاک ہونے اور جہنم میں جانے کی وعید سنائی گئی ہے۔

*سورۃ الاخلاص:*
توحید کا سبق دیا گیا کہ اللہ ایک ہی ہے، وہ بے نیازہے، اولاد اور ماں باپ ہونے اور شریکوں سے پاک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔

*سورۃ الفلق:*
ہر قسم کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہئے خصوصاً مخلوق کے شر سے، اندھیرے کے شر سے، پھونکیں مارنے والیوں کے۔شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

*سورۃ الناس:*
لوگوں کے پالنہار، لوگوں کے بادشاہ اور لوگوں کے معبود کی پناہ میں آیا جائے وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے چاہے وہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ہو۔

*(اللہ تعالی ہمیں قرآن کو پڑھنے، سمجنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے)*