HOME

Showing posts with label KNOWLEDGE. Show all posts
Showing posts with label KNOWLEDGE. Show all posts

Monday 11 April 2022

چار ہارمون




چار ہارمون ہیں جن کے خارج ہونے سے انسان خوشی محسوس کرتا ہے:
1. *Endorphins*، اینڈورفنس
2. *Dopamine* ڈوپامائین
3. *Serotonin*، سیروٹونائین
and اور
4. *Oxytocin* آکسی ٹوسین
*ہمارے اندر خوشی کا احساس ان چار ہارمونس کی وجہ سے ہوتا ہےاس لئےضروری ہے کہ ہم ان چار ہارمونس کے بارے میں جانیں*۔ 

▪پہلا ہارمون اینڈورفنس ہے : 
جب ہم ورزش کرتے ہیں تو ہمارا جسم درد سے نپٹنے کیلئے اینڈورفنس خارج کرتا ہے تاکہ ہم ورزش سے لطف اٹھا سکیں۔ اسکےعلاوہ جب ہم کامیڈی دیکھتے ہیں، لطیفے پڑھتے ہیں اس وقت بھی یہ ہارمون ہمارے جسم میں پیدا ہوتا۔ اسلئے خوشی پیدا کرنے والے اس ہارمون کی خوراک کیلئے ہمیں روزانہ کم از کم 20منٹ ایکسرسائز کرنا اور کچھ لطیفے اور کامیڈی کے ویڈیوز وغیرہ دیکھنا چاہیئے۔ 

▪دوسرا ہارمون ڈوپامائین ہے:
زندگی کے سفر میں، ہم بہت سے چھوٹے اور بڑے کاموں کو پورا کرتے ہیں، جب ہم کسی کام کو پورا کرتے تو ہمارا جسم ڈوپامائین کو خارج کرتا ہے. اور اس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ 
جب آفس یا گھر میں ہمارے کام کے لئے تعریف کی جاتی تو ہم اپنے آپ کو کامیاب اور اچھا محسوس کرتے ہیں، یہ احساس ڈوپامائین کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عورتیں عموماً کھر کا کام کرکے خوش کیوں نہیں ہوتی اسکی وجہ یہ ہیکہ گھریلو کاموں کی کوئی تعریف نہیں کرتا۔ 
جب بھی ہم نیا موبائیل، گاڑی، نیا گھر، نئے کپڑے یا کچھ بھی خریدتے ہیں تب بھی ہمارے جسم سے ڈوپامائین خارج ہوتا ہے۔اور ہم خوش ہوجاتے ہیں.
اب، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شاپنگ کرنے کے بعد ہم خوشی کیوں محسوس کرتے ہیں۔ 

▪تیسرا ہارمون سیروٹونائین: 
جب ہم دوسروں کے فائدہ کیلئے کوئی کام کرتے ہیں تو ہمارے اندر سے سیروٹونائین خارج ہوتا ہے اور خوشی کا احساس جگاتا ہے۔ 
انٹرنیٹ پر مفید معلومات فراہم کرنا، اچھی معلومات لوگوں تک پہنچانا، بلاگز، Quora اور فیس بک پر پر عوام کے سوالات کا جواب دینا اسلام یا اپنے اچھے خیالات کی طرف دعوت دینا ان سبھی سے سیروٹونائین پیدا ہوتا ہے اور ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔

▪چوتھا ہارمون آکسی ٹوسین ہے: 
جب ہم دوسرے انسانوں کے قریب جاتے ہیں یہ ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ 
جب ہم اپنے دوستوں کو ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو جسم اکسیٹوسین کو خارج کرتا ہے۔
واقعی یہ فلم 'منا بھائی' کی جادو کی چھپی کی طرح کام کرتا ہے۔ جب ہم کسی کو اپنی باہوں میں بھر لیتے ہیں تو آکسی ٹوسین خارج ہوتا ہے اور خوشگواری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ 

📌 خوش رہنا بہت آسان ہے: 
 ہمیں اینڈروفنس حاصل کرنے کے لئے ہر روز ورزش کرنا ہے۔
ہمیں چھوٹے چھوٹے ٹاسک پورا کرکے ڈوپا مائین حاصل کرنا ہے۔ 
دوسروں کی مدد کرکے سیروٹونائین حاصل کرنا ہے۔
اور
آخر میں اپنے بچوں کو گلے لگاکر، فیملی کے ساتھ وقت گزار کر اور دوستوں سے مل کر آکسی ٹوسین حاصل کرنا ہے۔ 

اس طرح ہم خوش رہیں گے۔ اور جب ہم خوش رہنے لگیں گے تو ہمیں اپنے مسائل اور چیلنجز  سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔

*اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بچہ اگر خراب موڈ میں ہو تو اسے فوری گلے لگانا کیوں ضروری ہے؟* 

بچوں کیلئے: 
1.موبائیل یا ویڈیو گیم کے علاوہ گراونڈ پر جسمانی کھیل کھیلنے کی ہمت افزائی کریں۔ (اینڈروفنس) 

2. چھوٹی بڑی کامیابیوں پر بچے کی تعریف کریں، اپریشیئٹ کریں۔(ڈوپامائین)

3. بچے کو اپنی چیزیں شیئر کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی عادت ڈالیں۔اسکے لئے آپ خود دوسروں کی مدد کرکے بتائیں۔(سیروٹونائین)

4. اپنے بچے کو باہوں میں بھر کر پیار کریں۔(آکسی ٹوسین) 

خوش رہیں۔ خوشیاں بانٹتے رہیں...


Friday 8 April 2022

دماغ


انسانی دماغ ٹھوس نہیں ہوتا بلکہ لچکدار ہوتا ہے اور اسکا %73 حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکا وزن صرف 1300گرام سے 1400 گرام تک ہوتا ہے۔ اور حیران کن طور پر یہ ایک کھرب خلیات پر مشتمل ہوتا ہے یہ تعداد قریب قریب اتنی ہی ہے جتنے ہماری کہکشاں ملکی وے میں ستارے ہیں۔ ان خلیات کی بھی دس ہزار اقسام ہیں اسکا سائز مکمل جسم کا صرف %2 ہوتا ہے لیکن یہ کل توانائی کا بیس فیصد استعمال کرتا ہے اسکے مختلف حصے اپنا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں____
دماغ کا ہر خلیہ اپنے آپ میں کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے پھر یہ سارے آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں ان میں Networking ,ھوتی ھے۔ جس کی وجہ سے یہ مل کر فیصلہ کرتے ہیں یاداشت محفوظ کرنے والا حصہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ 2.5 پیٹا بائیٹ میموری محفوظ کر سکتا ھے۔ سادہ الفاظ میں تقریباً پچیس لاکھ گیگا بائیٹس کا ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ھے____
دماغ کے خلیات کو خون سپلائی کرنے والی نالیاں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ بمشکل نظر آتی ہیں لیکن صرف دماغ میں انکی طوالت اتنی ہوتی ہے کہ بالفرض محال انکو آپس میں جوڑ دیا جائے تو 120000 کلومیٹر لمبائی بنے گی دماغی خلیات ایک دوسرے کو 432 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برقی بیغامات بھجواتے ہیں جو کہ فرمولا ون ریس کی اسپیڈ سے بھی زیادہ اسپیڈ ہے____
دماغ کو آکسیجن کی سپلائی روک دی جائے تو اسکے خلیات مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو دماغ پھر بھی اپنا کام جاری رکھتا ہے دماغ انسان کو زندہ رکھنے کی آخری حد تک جنگ کرتا ہے۔ خود دماغ کو یقین نہیں آتا کہ میں مر رہا ہوں۔ ادھر ادھر خون کی نالیوں میں بچی کھچی آکسیجن کھینچ کر دماغ انسان کے مرنے کے بعد بھی تقریباً دس منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ اور بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر خون اور آکسیجن کی سپلائی کی بندش بلآخر دماغ کو موت کی ابدی وادیوں میں گہری نیند سلا دیتی ھے____!!





Thursday 7 April 2022

دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات



20 دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات:

1۔کیا آپ اللہ کی قدرت کے مظہر" انسانی جسم "کے متعلق یہ حیرت انگیز بات جانتے ہیں۔کہ انسانی جسم میں موجود خون کی نالیوں کی مجموعی لمبائی 60 ہزارمیل کے برابر ہے۔
2۔سام سانگ کوریائی زبان کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے سام اورسانگ ۔سام کا مطلب" تین" اور سانگ کا مطلب "ستارے "ہے۔ یعنی تین ستارے
3۔سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریبا11 کلومیڑ (10923میڑ )ہے
4۔دنیا میں بانوے فیصد لوگ گوگل کا استعمال اپنے اسپیلنگ چیک کرنے کے لئے کرتے ہیں۔اور پاکستان میں 80 فیصد لوگ گوگل کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ پتہ چل سکے انٹرنیٹ چل رہا ہے کہ نہیں۔ 
5۔مینڈک کی زبان میں تین گنا بڑا شکار دبوچنے کی طاقت ہوتی ہے
6۔ اب تک کا خطرناک ترین ہوائی حادثہ 1977 میں ہوا ۔اور اس حادثے میں583 لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔
7۔افریکی ہاتھی دنیا کا تیسرا سب سے وزنی جانور ہے۔۔ اس کا وزن 13000 کلو گرام تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
8 ۔ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی صرف پانچ ممالک چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں رہتی ہے
9۔ نابینا افراد ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے۔
10۔ مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔
11۔ الو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔
12۔کیا آپ بحیرہ مردار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔
13۔ پاکستان کا "مکلی قبرستان، ٹھٹھہ " جو کے مسلمانوں کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔جہاں ایک ہی جگہ پر لاکھوں مسلمان دفن ہیں ۔یہ قبرستان 6 میل کے طویل ایریا میں پھیلا ہوا ہے۔
14۔عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 2009 میں جاری کیا تھا جو کہ 100ٹریلین ڈالر یعنی100 کھرب زمبابوے ڈالرکا تھا۔ 
15۔ کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔
16۔کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔ 
17۔بچھو چھے دن تک اپنا سانس روک سکتا ہے۔بچھو پانی کی تہہ میں سانس نہیں لے سکتا لہذا وہ اپنا سانس روک لیتا بھلے اسے چھے دن وہاں پڑا رہنے دو۔ وہ سانس نہیں لے گا لیکن زندہ رہے گا۔
18۔ایک روسی خاتون "مسٹرس وسیلائیو "کے ایک ہی خاوند سے چالیس سال کے دورانیے میں یعنی سنہ1725ء سے 1765ءکے عرصہ کے دوران 69 بچے پیدا ہوئے
19۔مراکش کے سلطان إسماعيل بن الشريف ابن النصر جس نے مراکش پر 1672ء سے 1727ء تک 55 سال حکومت کی تھی ۔ اس کے مختلف بیویوں اور باندیوں (کنیزوں) سے 525 بیٹے اور 342 بیٹیاں تھیں۔
20.بچھو چھے دن تک اپنا سانس روک سکتا ہے۔بچھو پانی کی تہہ میں سانس نہیں لے سکتا لہذا وہ اپنا سانس روک لیتا بھلے اسے چھے دن وہاں پڑا رہنے دو۔ وہ سانس نہیں لے گا لیکن زندہ رہے گا۔

 آپ کو کونسی معلومات سب سے زیادہ دلچسپ و عجیب لگی۔


Wednesday 5 August 2020

چاند کے متعلق کچھ بہت ہی دلچسپ و عجیب معلومات۔



چاند کے متعلق کچھ بہت ہی دلچسپ و عجیب معلومات۔

میں آج آپ کو چاند کے متعلق کچھ ایسی باتیں بتانے لگا ہوں جن میں سے اکثر آپ نے کبھی نہیں سنی ہوں گی۔ 
(سوائے ان لوگوں کے جو آسٹرانومی)Astronomy)کے طالب علم ہیں.سائنس دانوں کے مطابق
۔1۔چاند ہمارے سولر سسٹم کا پانچواں بڑا سیّارہ ہے
۔2۔اگر کسی انسان کا وزن دنیا میں 100 پؤنڈز ہے، تو چاند پر اس کا وزن صرف 16عشاریہ 6 پونڈ رہ جاۓ گا
۔3۔اس طرح اگر کوئی چاند پر اچھلنے کی کوشش کرے، تو وہ دنیا کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ اونچا اچھل سکتا ہے
۔4۔ اسی طرح چاند پر انسان 6 گنا زیادہ بھاری وزن اٹھا سکتا ہے
۔5۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے۔ اگر آپ سمندر کی کنارے پر ہو، اور آپ کے بالکل اوپر چاند ہو، تو آپ کے پاسسمندر کی لہریں اور بھی تیزی سے آئیں گی
۔6۔ زمین سے ایک وقت میں چاند کی ایک ہی سائیڈ ہی دیکھی جا سکتی ہے.یعنی ہم اس کے دائیں بائیں یا پیچھے سے یا اوپر سے نہیں دیکھ سکتے
۔7۔ زمین سے چاند اور سورج دیکھنے میں ایک ہی سائز کے لگتے ہیں، لیکن سورج چاند سے 400 گنا زیادہ بڑا ہے
۔8۔ چاند زمین سے کوئی دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے
۔9۔ اس کا قطر 2163 میل ہے
۔10۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے
۔11۔اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوںکے دہانے موجود ہیں
۔12۔اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی اور نہ ہی کوئی سبزہ۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے
۔13۔دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ موسمی تبدیلی ایک گھنٹے کے اندر اندر واقع ہو جاتی ہے
۔14۔چاند کادن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے
۔15۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے
۔16۔چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے
۔17۔امریکہ کے مطابق20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔جبکہ ایک سروے کے مطابق چھ فیصد امریکی اور بیس فیصد روسی آج بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں۔ کہ چاند پر آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا
۔18۔ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباًً 41 فی صد حصہ ہی نظر آتا ہے اگر چہ چاند پورا ہی کیوں نہ ہو
۔19۔اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے
۔20۔چاند پر سب سے پہلے اپالو -2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کیے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔


وہ جھوٹ جنہیں ہم سچ مانتے ہیں
 
متعدد اقسام کے ایسے جھوٹ اور غلط فہمیاں ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جنہیں سچ مانتے ہیں اور آنکھ بند کر کے ان پر یقین کرلیتے ہیں- دراصل یہ باتیں نسل در نسل افواہوں کی صورت میں پھیلتی چلی آئی ہیں اور کبھی بھی ان کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی گئی- ہم آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں سے چند ایسے عام جھوٹ یا غلط فہمیوں اور ان کی حقیقت کا ذکر کر رہے ہیں جنہیں ہمارے ہاں سچ مانا جاتا ہے-
 
کینو
کینو میں وٹامن سی ہوتا ہے اور ہم اکثر جس کو زکام ہوتا ہے اس کو کینو یا مالٹا کھانے سے منع کرتے ہیں۔ جبکہ وٹامن سی  نزلے زکام کو ٹھیک کرنے میں تو مددگار ثابت نہیں ہوتا٬ لیکن یہ اس بیماری کی تکالیف کو کم ضرور کرتا ہے-

گلا خراب ہے تو آئس کریم نہیں کھانی
ہم اکثر بچوں کو حلق یا گلا خراب ہونے کی صورت میں آئسکریم یا ٹھنڈی چیزیں استعمال کرنے روکتے ہیں- لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئسکریم یا ٹھنڈی چیزیں حلق کو مزید خراب نہیں کرتی بلکہ درد سے آرام دیتی ہیں- ہمارا گلا ایک مختلف وائرس کے باعث خراب ہوتا ہے-

پانی سے بجلی گزرتی ہے؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 100 فیصد خالص پانی میں سے بجلی نہیں گزرتی- درحقیقت پانی میں پائے جانے والے مختلف معدنیات اور دیگر اجزاء بجلی کو پاس کر دیتے ہیں-

چیونگم نگل لی تو شائد اب یہ نہیں نکلے گی
وہ چیونگم جسے ہم نگل لیتے ہیں وہ کبھی بھی ہضم تو نہیں ہوتی لیکن وہ براہ راست ہمارے جسم سے خارج ہوجاتی ہے-

چمگادڑ کو کیا نظر نہیں آتا
ہم اکثر سنتے ہیں کہ چمگاڈر کو نظر نہیں آتا لیکن یہ بات بھی سچ نہیں- اس جانور کو نہ صرف دکھائی دیتا ہے بلکہ ان کی نظر انتہائی بہترین ہوتی ہے-

کیا جانور واقعی بلیک اینڈ وائٹ دیکھتے ہیں
اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ کتا بلی کو رنگ نظر نہیں آتے یعنی وہ صرف بلیک اور وائٹ دیکھتے ہیں حالانکہ کتا اور بلی ایسے جانور ہیں جنہیں سرمئی رنگ نہیں دکھائی دیتا اور یہ دراصل نیلے اور سبز رنگوں میں دیکھتے ہیں۔

دماغ صرف 10 فیصد استعمال ہوتا ہے
یہ بات بھی ہمارے ہاں عام پائی جاتی ہے کہ انسان اپنے دماغ کا صرف 10 فیصد حصہ استعمال کرتا ہے- لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ انسان اپنا مکمل دماغ استعمال کرتا ہے- لیکن یہ اس دماغ کے مختلف مواقع پر مختلف حصوں کا استعمال کرتا ہے-

ٹوتھ پیسٹ زخموں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے
ٹوتھ پیسٹ کبھی بھی جلنے٬ داغ اور دانوں کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوتے بلکہ یہ انفیکشن کو بڑھا دیتے ہیں اور شفایابی کے عمل کو سست کردیتے ہیں- جبکہ ہم اکثر زخموں پر ٹوتھ پیسٹ لگاتےہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے زخم جلد ٹھیک ہوجائے گا۔

کیا مچھر کی زندگی صرف ایک دن ہوتی ہے؟
عام طور پر سمجھا جاتا ہے مچھر کی زندگی صرف ایک دن کی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اوسطاً ایک ماہ تک زندہ رہتے ہیں-

ہاتھی سونڈ سے پانی پیتا ہے؟
دیگر جانوروں کی مانند ہاتھی بھی پانی پینے کے لیے اپنے منہ کا ہی استعمال کرتے ہیں- ہاتھی اپنی سونڈ کو صرف پانی کو ذخیرہ کرنے یا اسے خارج کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے- جب کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہاتھی سونڈ سے پانی پیتا ہے۔

تو دوستو! اس کو پڑھنے سے پہلے آپ ان جھوٹی باتوں میں سے کون سی بات کو سچ سمجھ کر اس پر عمل کرتے تھے۔ اپنے جواب کمنٹ میں لکھیں۔

Mobile Fingerprint Lock




انگلیوں کے نشانات آپ کے فون کو محفوظ کرنے کا ایک برا طریقہ ہے
اگر کسی بڑے ٹکن جماعت کو "سرخ چہرہ" کہنے کے لئے کبھی مناسب وقت نکلا ہو تو ، یہ اب ممکن ہے۔ گذشتہ روز جاری کردہ ایک نچلے بیان میں ، سام سنگ نے تسلیم کیا ، کچھ واضح معاملات اور اسکرین پروٹیکٹر کو گلیکسی ایس 10 ، گلیکسی 10 پلس ، گلیکسی ایس 10 5 جی ، گلیکسی نوٹ 10 ، اور گلیکسی نوٹ 10 پلس پر فنگر پرنٹ سینسروں کو نظرانداز کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
https://www.androidauthority.com/samsung-galaxy-s10-fingerprint-flaw-1042635/
آپ کو تھری ڈی پرنٹر ، انتہائی اعلی مزاحمتی کیمرا ، لیٹیکس سانچوں ، یا کسی پوشاک اور خنجر کی بکواس کی ضرورت نہیں ہے۔ فون کا ایک گندا سا سستا کیس ، آپ کو کسی کے سیمسنگ فلیگ شپ کو غیر مقفل کرنے کے لئے درکار ہے۔
اس بڑے پیمانے پر اعتماد کو توڑنا مشکل ہے ، اور یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ سام سنگ اب تک صارفین سے معافی مانگنے میں کیوں ناکام رہا ہے۔ پھر بھی ، یہ شرمناک حادثہ چیزوں کی اسکیم میں حیرت انگیز نہیں ہے۔
سچ یہ ہے کہ ، فنگر پرنٹ اور بائیو میٹرک تصدیق کے دیگر طریقے غلط ہیں۔ اگر آپ واقعی میں موبائل سیکیورٹی کی پرواہ کرتے ہیں تو آپ ان پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ پن اور پاس ورڈ زیادہ محفوظ ہیں ، اگرچہ تصدیق کے کم آسان طریقے۔
بہت ساری وجوہات ہیں کہ کیوں کہ پرانے زمانے کا پاس ورڈ فنگر پرنٹ کے قارئین ، چہرے کے سکینروں ، یا ریٹنا / ایرس سکینرز پر افضل ہے۔

ایک کے لئے ، کسی کو اپنے فنگر پرنٹ یا چہرے سے اپنے آلے کو انلاک کرنے پر مجبور کرنا آسان ہے اس سے عام طور پر یہ کہ وہ پاس ورڈ یا پن ظاہر کرنے پر مجبور کریں۔ لوگوں کو ان کے آلے کو بھی غیر مقفل کرنے کی طرف راغب کرنا بہت آسان ہے - بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ سوتے ہوئے آلہ کو ان کے سامنے رکھنا ہوتا ہے (صرف گوگل پکسل 4 جائزہ لینے والوں سے پوچھیں)۔
قانونی مضمرات بھی ہیں۔ کچھ حلقوں میں ، آپ کو خود سے زیادتی کے خلاف تحفظات کی وجہ سے پاس ورڈ فراہم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ، لیکن آپ کو کسی سینسر کو چھونے یا آپ کے فون کو دیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ، جس طرح آپ کو ڈی این اے کا نمونہ فراہم کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اب تک ، اس مسئلے میں شامل رہنے والے لوگوں کی تعداد نسبتا کم ہے ، لیکن ایسی جائز وجوہات ہیں جن سے آپ حکام کو اپنے آلے تک رسائی دینے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔

پھر سینسرز اور اسکینرز کو "ہیک کیے جانے" کے متعدد طریقوں کا مسئلہ ہے۔ بعض اوقات اس میں مہنگے سامان اور پرعزم حملہ آور کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے معاملات میں ، مالک کی تصویر یا ایک سادہ سلیکون کیس چال کو انجام دے گا۔

آپ بحث کرسکتے ہیں کہ فنگر پرنٹ اور چہرے کے اسکینر 99٪ صارفین کے لیے کافی اچھے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ، زیادہ تر لوگوں کو کبھی بھی حکام کو اپنے پیغامات کے ذریعہ افواہوں کے بارے میں یا کسی شرمناک اداروں کے ذریعہ اپنے فیس بک پروفائل سے فنگر پرنٹس چوری کرنے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بایومیٹرک سینسرز نے لاکھوں صارفین کی سیکیورٹی میں بہتری لائی ہے ، ورنہ ، جب بھی وہ اپنے فون کو غیر مقفل کرتے ہیں تو ہر وقت پن ٹائپ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرسکتے ہیں۔
لیکن ہر وقت خطرہ بلند ہوتا جارہا ہے۔ اب ہم اپنے بینک اکاؤنٹس کو غیر مقفل کرنے ، اسٹورز میں ادائیگیوں کو مجاز کرنے ، اور لاسٹ پاس جیسے پاس ورڈ لاکرس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنے چہروں اور فنگر پرنٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ ابھی کے لئے ، اس کا مطلب آپ کی ڈیجیٹل شناخت ہے۔ کچھ سالوں میں ، اسمارٹ فونز آپ کی شناخت ، آن لائن اور حقیقی زندگی دونوں میں ہوں گے۔

آخر میں ، پاس ورڈز کو بائیو میٹرک تصدیق کے طریقوں سے ایک اور بڑا فائدہ ہوتا ہے: وہ ڈسپوز ایبل ہوتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنا پن یا پاس ورڈ تبدیل کرسکتے ہیں ، لیکن جب آپ کے غیر منقول جسمانی خصائات لیک ہوجائیں تو کیا ہوتا ہے؟ آپ اپنے فنگر پرنٹ یا ریٹنا کو کس طرح اپ ڈیٹ کرتے ہیں؟

تم کیا کر سکتے ہو
اگر آپ اسمارٹ فون سیکیورٹی کے بارے میں پریشان ہیں تو ، آپ اپنی حفاظت کے ل a کچھ آسان چیزیں کرسکتے ہیں:

ایک محفوظ توثیق کا طریقہ (پن یا پاس ورڈ) چنیں ، لیکن سست نہ بنیں: جتنے زیادہ حروف آپ استعمال کریں گے ، وہ محفوظ تر ہو گا۔
پیٹرن تالے سے پرہیز کریں۔ ان کی جاسوسی کرنا آسان ہے ، اور اچھے پن یا پاس ورڈ سے کم محفوظ ہے۔
اسمارٹ لاک جیسی خصوصیات کو غیر فعال کریں جو مخصوص علاقوں میں یا بلوٹوتھ ڈیوائس سے منسلک ہونے پر آلہ کو کھلا رکھتا ہے۔
چہرے کے انلاک کرنے کے مختلف طریقوں کے درمیان فرق کو سمجھیں - جو آپ کے چہرے کو اسکین کرنے کے لیے لیزر یا انفراریڈ کا استعمال کرتے ہیں وہ سامنے والے کیمرہ پر انحصار کرنے والوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔
لاک ڈاؤن سہولت کو فعال کریں ، جو انڈرائیڈ پائی اور اس کے بعد دستیاب ہیں۔ اس سے آپ کو PIN یا پاس ورڈ کے علاوہ انلاک کرنے والے تمام طریقوں کو فوری طور پر غیر فعال کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔
اپنی مخصوص فون کی سکیورٹی خصوصیات سے اپنے آپ کو واقف کرو۔ کچھ آلات ایسے اختیارات پیش کرتے ہیں جیسے مخصوص فنگر پرنٹ کے پیچھے کچھ مخصوص ایپس یا مواد چھپانے کی صلاحیت۔
معروف مینوفیکچروں سے ایسے آلات خریدیں جن میں باقاعدگی سے سیکیورٹی اور سسٹم اپ ڈیٹ ملنے کا زیادہ امکان ہے۔
عام طور پر ، بنیادی سیکورٹی حفظان صحت پر عمل کریں۔ کسی کو آپ کے آلے تک جسمانی رسائی حاصل کرنے کے مقابلے میں دور سے ہیک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
آپ کا مطلوبہ فون لاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟



Saturday 27 June 2020

بادل کیسے بنتے ہیں؟ ‏



بادل کیسے بنتے ہیں؟
سورج کی روشنی جب آبی اجسام مثلاً سمندر جھیل وغیرہ پر پڑتی ہے تو پانی آبی بخارات کی شکل میں اوپر اٹھتا ہے عمل تبخیر کی وجہ سے جب یہ بخارات گرم ہوا کے ساتھ مسلسل بلند ہو کر اس قدر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں کہ عمل تکثیف ہو سکے تو بادل میں تبدیل ہو جاتے ہیں عمل تبخیر میں ہر قسم کے آبی ذخائر شمولیت اختیار کرتے ہیں مزید تفصیل درج ذیل ہے 
بادل کرہ ہوا کا ایک اہم حصہ ہیں جو فضا میں معلق پانی کے قطروں یا برف کے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں 'جن کا قطر 20 سے 50 مائیکرون تک ہوتا ہے اب آپ پوچھیں گے کہ بھائی یہ مائیکرون کیا ہوتا ہے تو مندرجہ بالا پیمائش 0.0008 انچ سے 0.0024 انچ یا 0.02 ملی میٹر سے 0.06 ملی میٹر بنتی ہے تو پتہ چلا کہ بادل لاتعداد انتہائی چھوٹے پانی اور برف کے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں ان ذرات میں سے ہر ذرہ کسی نہ کسی ٹھوس مرکز مثلاً خاکی ذرات وغیرہ کے گرد بخارات کے جمنے سے بنتا ہے جن کا قطر 0.1 سے 1.0 مائیکرون ہوتا ہے (آگے آنے والی اصطلاحات کے لیے ڈکشنری /لغت استعمال کریں) 
''Clouds are visible masses of suspended, minute water droplets or ice crystals '' 
بادلوں کی تشکیل کے لیے دو باتوں کا ہونا بہت ضروری ہے 
1.  ہوا کا سیر شدہ ہونا (saturated air) چاہے وہ ہوا کے ٹھنڈا ہونے سے ہو یا مزید بخارات کے شامل ہونے سے
2.  تکثیفی مرکزے (condensation nuclei) کا موجود ہونا. جس کے گرد آبی بخارات جم سکیں یہ مرکزے خاکی ذرات بھی ہو سکتے ہیں اور نمکیات بھی
نمی سے بھرپور ہوا جس قدر زیادہ ٹھنڈی ہو گی اتنے ہی زیادہ گھنے بادل بنیں گے. عام طور پر یہ سارا عمل سطح زمین سے بلندی پر ہوتا ہے کیونکہ زمین کے قریب درجہ حرارت کافی زیادہ ہوتا ہے البتہ اگر زمین کا درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا تناسب موافق ہو تو زمین پر بھی بادل بن جاتے ہیں جس کو دھند یا Fog کہتے ہیں
بادلوں کے کے اندر درجہ حرارت کافی کم ہوتا ہے عام حالات میں منفی 12 سے کم ہی ہوتا ہے بادل کی موجودہ صورتحال اس کے درجہ حرارت پر منحصر ہوتی ہے
اگر درجہ حرارت منفی 12 سے منفی 30 ہو تو بادل پانی اور برف کی قلموں پر مشتمل ہو گا 
اگر درجہ حرارت منفی 30 سے کم ہو تو بیشتر حصہ برف کی قلموں کا مجموعہ ہو گا 
اگر درجہ حرارت منفی 40 تک گر گر جائے تو تمام حصہ برفانی قلموں پر مشتمل ہو گا. اور ایسے بادل سطح زمین سے 6 سے 12 کلومیٹر کی بلندی پر پائے جاتے ہیں
ہر قسم کی بارش کا ماخذ بادل ہی ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی بادلوں کا موسم پر گہرا اثر ہے

بارش کیسے برستی ہے؟

سورج کی تمازت سے سطح زمین پر موجود آبی ذخائر سے آبی بخارات ہوا میں شامل ہوتے رہتے ہیں جب یہ نم آلود ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو سطح زمین سے بلندی کی طرف جاتے ہوئے اسے نسبتاً سرد سے سرد تر درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے گرم ہوا زیادہ نمی کو سنبھال سکتی ہے لہٰذا جب ہوا بلندی پر پہنچ کر سرد ہوتی ہے تو نمی کو سنبھالنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے جس سے ہوا سیر شدہ ہو جاتی ہے اور عمل تکثیف وقوع پذیر ہوتا ہے عمل تکثیف سے مراد مادہ کا گیس کی حالت سے مائع میں تبدیل ہونا یعنی condensationعمل تکثیف کے نتیجے میں نم آلود ہوا ننھے ننھے قطرات سے بھرپور ہو جاتی ہے یہ قطرات کسی خاکی مرکزے کے گرد بنتے ہیں اور ہوا میں معلق اڑتے پھرتے ہیں جسے ہم بادل کی شکل میں دیکھتے ہیں. اگر بادلوں کا درجہ حرارت کافی کم ہو تو یہی قطرے برفانی قلموں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں 
بادلوں میں اگر ماحول مستحکم stable ہو تو بادل ہلکے پھلکے یا بغیر بارش کے نظر آتے ہیں جیسے سرس، سرو سٹریٹس اور آلٹو کیومولس وغیرہ
لیکن اگر ماحول میں ہیجانی کیفیت ہو ہوا مسلسل اوپر اٹھ رہی ہو تو صورت حال مختلف ہوتی ہے ایسی صورت میں مزید نمی پہنچتی ہے مزید بادل بنتے ہیں اور ننھے قطرے آپس میں ٹکرا کر بڑے قطروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ ہوا ایک خاص حجم تک قطروں کو نیچے گرنے سے روکتی ہے یہی صورت حال بادلوں میں موجود برفانی قلموں اور اولوں کی ہوتی ہے ان بادلوں کی سب سے عام شکل کیومولس اور کیومولونمبس ہے
جب قطرے کافی بڑے ہو جاتے ہیں تو ہوا ان کو نہیں روک سکتی اور ان کا زمین کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے بارش برسنے لگتی ہے
اگر بادلوں میں درجہ حرارت بہت کم ہو جیسا ڈبلیو ڈی سیزن میں سرد محاذ کی وجہ سے ہوتا ہے تو بادل برفانی قلموں پر مشتمل ہوتا ہے ڈسٹربینس کی موجودگی میں ہوا ان قلموں کو رکے رکھتی ہے حتی کہ اولوں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں بعض اوقات یہ اولے زمین کے قریب آکر درجہ حرارت نسبتاً زیادہ ہونے کی وجہ سے پگھل جاتے ہیں اور بارش کے بڑے بڑے قطروں کی صورت برستے ہیں لیکن کبھی کبھی اولوں ہی کی شکل میں زمین پر پہنچ کر نقصانات کا باعث بنتے ہیں
کبھی کبھی طوفانی موسم میں ہوا کی عمودی حرکت updraft اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے اولوں کو بھی دوبارہ اوپر لے جاتی ہے جس سے وہ حجم میں بڑھتے رہے ہیں جب وزن کافی زیادہ ہو جاتا ہے تو برسنے لگتے ہیں ایسی صورت حال کافی خطرناک ہوتی ہے جانی اور مالی نقصان کا باعث بنتی ہے
تحریر و تصویر محمد عثمان

💕پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں💕

Friday 12 June 2020

A.M اور P.M



آ پ AM اور PM کا مطلب جانتے ہیں ؟
 بچپن سے ہی وقت کے ساتھ AM یا PM لکھا دیکھتے چلے آرہے ہیں لیکن کبھی سوچا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ دن 12 بجے کے بعد PM اور رات 12 بجے کے بعد AM کیوں لکھتے ہیں؟اگرچہ آپ نے اپنے ذہن میں اس کے کئی طرح کے جوابات بنارکھے ہوں گے لیکن دراصل یہ لاطینی زبان کے چار الفاظ کے مخفف ہیں۔ پہلے AM کو دیکھتے ہیں، یہ لاطینی الفاظ ”اینٹ میریڈیم“ (Ante Meridiem) کا مخفف ہے جن کا معنی ہے ”نصف النہار سے پہلے“ یعنی دوپہر سے پہلے۔ اسی طرح PM لاطینی الفاظ ”پوسٹ میریڈیم“ (Post Meridiem) کا مخفف ہے اور ان الفاظ کا معنی ہے ”نصف النہار کے بعد“، یعنی جب ہم دوپہر ایک بجے کو 1PM لکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے نصف النہار کے بعد پہلا گھنٹہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دن رات PM،AM ہمارے سامنے لکھا ہونے کے باوجود ہم میں سے 99فیصد سے زائد لوگ ان کا مطلب نہیں جانتے، مگر اب آپ ان لوگوں میں شامل نہیں 👍

Tuesday 9 June 2020

Creating Blog In Urdu
























💕پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں💕



Monday 8 June 2020



کمپیوٹر کی تعلیم : کیا؟ کیوں؟ اور کیسے
کمپیوٹر کے اُردو میں لفظی معنی ’’حاسب ‘‘ کے ہیں، جس کا مطلب ہے ’’حساب کنندہ‘‘ یعنی حساب کرنے والی مشین لیکن آج کی جدید دنیا میں کمپیوٹر کی شناخت صرف ایک حسابی مشین کی نہیں رہی ہے کیوںکہ زندگی کے ہر شعبے میں کمپیوٹر پوری طرح دخل ہوچکا ہے۔ اب چاہے وہ تعلیم ہو، کھیل تفریح ہو، مواصلات یا سفر ہو، حتٰی کہ کوئی صنعت ہو یا ہسپتال ہو۔ کمپیوٹر ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں کی ضروریات بخوبی پوری کرتا نظر آتا ہے۔
کہیں یہ بچوں کو گیمز کے ذریعے تفریح مہیا کررہا ہے، کہیں یہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹی  کے طلباء کی تعلیمی ضروریات کو پورا کررہا ہے تو کہیں یہ بڑے بڑے سائنس دانوں، ڈاکٹرز اور انجینئرز کی مشکلات ان کی تجربہ گاہوں میں حل کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ آج کمپیوٹر نے استاد کی جگہ لے لی ہے اور کمپیوٹر، تدریس کے لیے ضروری ہوچکا ہے ۔
یوں تو ہر ایجاد اپنی جگہ حیران کن ہوتی ہے لیکن کمپیوٹر کی ایجاد سے انسانی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہوگیا ہے۔ کمپیوٹر کی افادیت اور اس کے روزافزوں استعمال کی رفتار کے پیش نظر ہندوستان میں کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کا باقاعدہ آغاز70 کے عشرے میں شروع ہوااس وقت ملک کے مختلف حصوں میں سرٹیفکیٹ، ڈپلوما، بیچلر اور ماسٹر ڈگری کے مختلف کورسز، مختلف یونیورسٹی  اور اداروں میں ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ نجی شعبے میں بھی بے شمار کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ قائم ہیں جہاں کمپیوٹر سے متعلق ایک سال، چھ ماہ اورتین ماہ کے سرٹیفکیٹ کورسز کروائے جاتے ہیں۔ عام طور پرتمام نجی انسٹی ٹیوٹس کا متعلقہ صوبے کے بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے منظور شدہ ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے ہر گلی و محلے میں ایسے انسٹی ٹیوٹ کی بھی بہتات ہے جو کسی بھی مستند ادارے سے منظورشدہ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کمپیوٹر کی تحصیل میں طلباء و طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیز کس طالب علم کے لیے کس قسم کا کمپیوٹر کورس یا ڈپلوما مستقبل میں اُس کے کیریئر کو سنوارنے میں فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے کیوںکہ نجی انسٹی ٹیوٹ زیادہ سے زیادہ فیسیں اینٹھنے کے چکر میں طلباء و طالبات کو ایسے کورسز میں بھی داخلے کی ترغیب دے دیتے ہیں، جن کی طلباء کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ فائن آرٹس کے طلباء کو کمپیوٹر پروگرامنگ اور کمپیوٹر ہارڈویئر کو کورسز کروادیے جاتے ہیں جن کا اِن کے آنے والے کیریئر میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے اگر انہیں گرافکس ڈیزائنگ یا ویب ڈیزائننگ کے کورسز کروائے جائیں تو بلاشبہہ اِن کے کیریئر میں چار چاند لگ سکتے ہیں۔
زیرِنظر مضمون میں کمپیوٹر کی تعلیم سے متعلق طلباء و طالبات اور ان کے والدین کو درپیش چند ایسے ہی مسائل اور اُن کے حل کو زیرِبحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کس کے لیے ضروری ہے؟ کمپیوٹر کے شارٹ کورسز کس طالب علم کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ کمپیوٹر ڈپلوما مختصر دورانیے کا بہتر رہتا ہے یا طویل دورانیے کا؟ یا کمپیوٹر کورسز کرتے ہوئے مضامین کا انتخاب کس بنیاد پر کرنا چاہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

٭کمپیوٹر کی تعلیم میں ’’ڈگری‘‘ اور ’’شارٹ کورس‘‘ کا فرق
سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ کمپیوٹر کی تعلیم میں ایک یونیورسٹی یا جامعہ کی ’’ڈگری‘‘ آپ کو ’’کمپیوٹر کی سمجھ‘‘ دیتی ہے جب کہ کسی انسٹی ٹیوٹ میں کیا گیا کورس ’’ہنر‘‘ پیدا کرتا ہے۔ یعنی کمپیوٹر کے شعبے میں ’’اعلیٰ ڈگری ‘‘ حاصل کرکے آپ کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے لیس کسی بھی ادارے، دفتر یا کمپنی میں وہاں موجود کمپیوٹر کے ایک پورے نظام کو تن تنہا بہ آسانی سنبھال سکتے ہیں جب کہ کمپیوٹر کے کسی مخصوص شعبے میں کیے گئے شارٹ کورس یعنی ’’ہنر‘‘کی بدولت آپ کو کسی بھی جگہ موجود کمپیوٹر کے نظام کے اندر ایک متحرک اور کارآمد کارکن کے طور کام کرنے موقع میسر آسکتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک کال سینٹر میں بیک وقت سینکڑوں ملازمین کام کررہے ہوتے ہیں، یہاں کام کرنے والے عام کارکنان کے لیے یہ ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ چھ ماہ یا سال کا متعلقہ شعبے کی ضرورت کے لحاظ سے ایک مختصر سا شارٹ کورس کرلیں، جب کہ کال سینٹر میں تیکنیکی و انتظامی معاملات سنبھالنے والوں کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ متعلقہ شعبے میں کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ضرور رکھتے ہوں۔ اس مثال سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کمپیوٹر کے میدان سب سے زیادہ ملازمتیں ’’شارٹ کورسز ‘‘ کرنے والوں کے لیے دستیاب ہوتی ہیں، جیسے ڈیٹا انٹری آپریٹر، لوئر ڈویژن کلرک، اپر ڈویژن کلرک، آفس اسسنٹ، اکاؤنٹنٹ، ریسیپشنسٹ، پرسنل سیکریٹری جیسی تمام ملازمتوں کے لیے کمپیوٹر کے ’’شارٹ کورسز ‘‘ پوری طرح اعانت کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ذیل میں چند انتہائی اہم ترین ’’شارٹ کورسز ‘‘ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے، تاکہ طلباء و طالبات کو درست کورس کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوسکے۔
٭شارٹ کورسز یا سرٹیفکیٹ کورسز:
شارٹ کورسز کو آج کل عرف عام میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ بہرحال مراد دونوں سے ایک ہی ہے۔ یہاں اس بات کی صراحت کرنا اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہیں ناموں کے تھوڑے بہت فرق سے ہمارے قارئین کسی مخمصے کا شکار نہ ہوجائیں۔ تمام ضلع سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں کمپیوٹر کی تعلیم کے نجی و نیم سرکاری ادارے مختلف شعبوں میں 3ماہ سے ایک سال تک کی میعاد کے ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘ ‘کی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ ایسے بھی ہیں جن کی مدت تکمیل ایک سے چھ ماہ ہے۔
’’
سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ کی تعلیم کے بھی اتنے ہی فائدے ہوتے ہیں جتنی کے ڈگری سطح کی تعلیم کے، بلکہ کچھ معاملات میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ ڈگری سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، کیوںکہ ڈگری کے لیے آپ کو چار سال میں 40 سے زیادہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جب کہ شارٹ کورسز میں ایک ہی چیز پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے، جس سے کم وقت میں ہنر میں زیادہ نکھار آتا ہے۔ عام طور پر ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ میں داخلے کے لیے بنیادی اہلیت دسویں یا بارہویں جماعت کے امتحان میں کام یابی ہے۔ نیز کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرنے والے بعض معیاری اداروں میں داخلے سے پہلے میلانِ انٹرنس کا امتحان بھی دینا ضروری ہوتا ہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ میں داخلے کے لیے صرف ان ہی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے جو آپ کے متعلقہ صوبے کے سرکاری فنی تعلیمی بورڈ سے منظور شدہ ہوں یا جن کے امتحانات حکومت  ہندوستان سے منظورشدہ فنی تعلیمی بورڈ کی نگرانی میں لیے جاتے ہوں۔
عموماً ایک سرٹیفکیٹ کورس کے اخرجات 3 سے4 ہزار روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں ورچوئل یونیورسٹی ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ سمیت ’’ڈپلوما کورسز‘‘ کے لیے بھی آپ کا ایک بہتر انتخاب ثابت ہوسکتی ہے، کیوںکہ ورچوئل یونیورسٹی نہ صرف ہائر ایجوکیشن سے منظورشدہ ہے بلکہ اس کے کیمپس بھی کثیر تعداد میں ملک  کے اہم شہر میں موجود ہیں۔ آپ اپنے علاقے سے قریب ترین ورچوئل یونیورسٹی کے کیمپس کی آفیشل ویب سائیٹ پر بہ آسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ ویب سائیٹ کا آفیشل لنک یہ ہے   http://www.vui.org.in/index.php ۔ ہاں! اگر آپ کو اپنے مطلوبہ کورس کرنے کی سہولت ورچوئل یونیورسٹی میں دستیاب نہ ہو تو پھر اپنے علاقے میں موجود کسی اچھے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اب چند اہم ترین ’’سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ کو اجمالی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔
٭فنڈامینٹل آف کمپیوٹر اینڈ انفارمشن ٹیکنالوجی :
کمپیوٹر کی بنیادی مبادیات میں دسترس حاصل کرنے کے لیے یہ ایک اہم ترین کورس تصور کیا جاتا ہے۔ اس شارٹ کورس کی خاص بات یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شخص اسے بہ آسانی مکمل کرسکتا ہے، جب کہ ہر خاص و عام کے لیے یہ کورس یکساں طور پر مفید بھی ہے۔ اس شارٹ کورس کو کرنے کے بعد طلباء و طالبات کے لیے زیادہ آسان ہوجاتا ہے کہ وہ کمپیوٹر کے میدان میں کسی مخصوص مضمون میں ڈپلوما یا ڈگری حاصل کرسکیں۔ اس کورس میں کمپیوٹر سے متعلق ابتدائی معلومات، ونڈوز انسٹالیشن، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور کمپیوٹر لینگویج کی عملی و نظری آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ سرکاری و نجی اداروں میں آفس اسسٹنٹ یا ڈیٹا انٹری آپریٹر سے مماثل ملازمتوں کے لیے عموماً اسی کورس کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭آفس آٹو میشن:

جیسا اس کورس کے نام سے ہی ظاہر ہے اس کورس میں ایسے سافٹ ویئرز سے متعلق نظری و عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے، جن کا تعلق روزمرہ کے دفتری اُمور سے ہوتا ہے۔ اس کورس میں خاص طور پر مائیکروسافٹ ایکسل، مائیکروسافٹ ورڈ، مائیکروسافٹ ایکسس، فرنٹ پیچ اور آؤٹ لک استعمال کرنے کی تفصیلی تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ تربیت کنندہ دفتری اُمور میں پیش آنے والے ہر قسم کے مسائل سے کماحقہ نمٹنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو سکے۔ یہ شارٹ کورس عموماً چھ ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، مگر بعض انسٹی ٹیوٹ اس شارٹ کورس کا ایڈوانس ورژن ایک سال تک بھی پڑھاتے ہیں جس کے باعث اس کورس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ شارٹ کورس اُن طلباء طالبات کو ہی کرنا چاہیے جن کا مستقبل میں کسی نجی و سرکاری ادارے میں ملازمت کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔
٭ای کامرس:
ای کامرس کے اردو میں معنی الیکٹرونک تجارت ہے، سادہ الفاظ میں آن لائن ویب سائٹ کے ذریعہ اشیاء یا خدمات کی خریدوفروخت کو ای کامرس کہتے ہیں۔ بے شمار فوائد کی وجہ سے یہ تصور دنیا بھر میں بہت تیزی سے عام ہوگیا ہے۔ اگر آپ پہلے سے کوئی کاروبار کر رہے ہیں یا آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے چاہتے ہیں یا آپ کاروباری رجحان رکھتے ہیں تو آپ کو ای کامرس کا سرٹیفکیٹ کورس ضرور کرنا چاہیے۔
ای کامرس کورس مکمل کرنے کے بعد آپ کے لیے فیصلہ سازی آسان ہوجائے گی کہ آپ کو اپنے ای بزنس کی طرف قدم بڑھانا ہے یا نہیں۔ یہ شارٹ کورس ایسے طلباء وطالبات کو بھی ضرور کرنا چاہیے جنہوں نے رسمی تعلیم میں کامرس بطور اختیاری مضمون کے پڑھا ہو۔ اگر آپ کاروباری ذہن کے حامل ہیں تو یہ شارٹ کورس شان دار کیریئر بنانے کے بے پناہ مواقع رکھتا ہے۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کی رسمی تعلیم کے حامل طلباء و طالبات کو اس شارٹ کورس سے ممکنہ حد تک احتراز کرنا چاہیے کیوںکہ اس شارٹ کورس میں پڑھائی جانے والی بنیادی مبادیات اُن کے تعلیمی و ذہنی رجحان سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں۔
٭سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ :

کمپیوٹر یا موبائل فون کے اندر کسی بھی مخصوص کام کو سرانجام دینے کے لیے کمانڈز یا ہدایات کے مجموعے کو سوفٹ ویئر کہتے ہیں۔ چوںکہ کمپیوٹر کی بنیادی زبان مشینی ہے، اس لیے انسان اور مشین کے درمیان رابطے کے لیے ایک ’’ریاضیاتی زبان‘‘ استعمال ہوتی ہے، جس کو پروگرامنگ لینگویج کہتے ہیں۔ اس وقت سوفٹ ویئرز ڈویلپمنٹ کے ’’سرٹیفکیٹ کورس‘‘ کے تحت کئی قسم کی پروگرامنگ اور اسکرپٹنگ لینگویج کی تعلیم دی جارہی ہے، جن میں زیادہ مشہور سی (C)، جاوا (Java)، پائتھن (Python)، روبی (Ruby)، ایچ ٹی ایم ایل (HTML)، ایکس ایم ایل (XML)، پی ایچ پی (PHP)، ڈاٹ نیٹ (Net.)، ڈیلفائی (Delphi) وغیرہ شامل ہیں۔
سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کو بطور کیریئر اختیار کرنے والے کے لیے کام اور مواقع کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر آپ نوجوان ہیں، آپ کا رجحان ’’سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ‘‘ کی طرف ہے ، آپ اس شعبے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں اور آپ کو سوفٹ ویئر کی فیلڈ پسند بھی ہے تو پھر دیر مت کریں۔ ہمارے ملک میں سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کی مختلف سطح پر تعلیم کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ملک بھر کے تمام ہی سرکاری اور نجی کالجز میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اس کے مختلف پروگرامز مثلاً سرٹیفکیٹ کورسز اور ڈپلوما کورسز کیے جا سکتے ہیں، جب کہ اس شعبے میں یونیورسٹی سطح پر اعلیٰ تعلیم یعنی بیچلرز، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی تک کے بہت سے تعلیمی پروگرامز بھی دستیاب ہیں۔
٭ گرافک ڈیزائننگ:

انسان خوب صورتی کو پسند کرتا ہے اور ایک قابل گرافک ڈیزائنر اس بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور سافٹ ویئر کی مدد سے کسی بھی چیز کو اس انداز سے تخلیق کرتا ہے کہ اس میں خوب صورتی، انفرادیت اور نفاست کے پہلو کچھ مزید اُجاگر ہوکر دیکھنے والے کی بھرپور توجہ اپنی جانب سمیٹ لیتے ہیں۔ جب ہم گرافک ڈیزائننگ کی بات کرتے ہیں تو بظاہر یہ آسان سا کام محسوس ہوتا ہے لیکن اب یہ شعبہ اتنا زیادہ وسیع ہوگیا ہے کہ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف طرح کے6 سے7 ’’سرٹیفکیٹ کورسز‘‘ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
گرافک ڈیزائننگ کے شعبے کو اختیار کرنے کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کی تعلیم کم ہے یا آپ کو انگریزی زبان پر عبورحاصل نہیں ہے تو بھی آپ اس شعبے میں نمایاں مقام بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ’’سرٹیفیکٹ کورس‘‘ یاہنر ہے جسے سیکھ کر صرف ایک کمپیوٹر کی مدد سے اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، آپ چاہیں تو اس کو پارٹ ٹائم کرلیں اور فل ٹائم کرنا چاہیں تو پھر تو کہنے ہی کیا۔ گرافک ڈیزائننگ کورس مکمل کرنے کے بعد بہ آسانی اپنا ذاتی کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ باقاعدہ آفس بناکر یا گھر بیٹھے بھی انٹر نیٹ پر فری لانس گرافک ڈیزائنر کے طور پر کام کا آغاز کیا جاسکتا یا پھر کسی ایڈورٹائیزنگ ایجنسی یعنی تشہیر ی ادارے، اخبار، ٹی وی چینل یاملٹی نیشنل کمپنی وغیرہ میں گرافک ڈیزائنر کی ملازمت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭ ویب سائیٹ ڈویلپمنٹ :

یہ بات تو سب ہی جانتے ہوں گے کہ دنیا بھر میں اس وقت کروڑوں ویب سائٹس کام کر رہی ہیں۔ یہ ویب سائٹس اپنے موضوع اور مقاصد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کاروبار سے متعلق ہیں اور کچھ خبروں، تعلیم، ادب، تفریح، علم، ثقافت اور سیاسی موضوعات پر ہیں۔ ویب سائیٹ بنانے کی تعلیم کو ہی ویب سائیٹ ڈویلپمنٹ یا ویب سائیٹ ڈیزائننگ کہا جاتاہے۔
ویب سائٹ ڈیزائننگ کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کم ازکم تعلیم میٹرک درکار ہوتی ہے۔ بنیادی کورس تین ماہ کا ہوتا ہے، جس کے بعد مزید چار سے چھ ماہ کے مختلف اعلیٰ کورسز بھی کیے جاسکتے ہیں، جن کے لیے کم ازکم ایف اے کی تعلیم درکار ہوتی ہے۔ہندوستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اور نجی ادارے اس کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں، جن کی فیس پانچ ہزار سے بیس ہزار تک ہے، جب کہ صوبہ پنجاب میں ’’یو کے ایڈ‘‘ کے تعاون سے مختلف ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں مستحق افراد کو نہ صرف مفت تربیت بلکہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لیے یہ ویب سائیٹ وزٹ کریں.
اس کے علاوہ اکثر بڑی یونیورسٹیاں بھی چھٹیوں میں اس مضمون میں شارٹ کورسز کرواتی ہیں۔ اگر آپ آرٹ یا فن کی جانب رجحان رکھتے ہیں اور گرافکس، رنگوں اور دیگر ڈیجیٹل طریقوں سے اپنے اندر موجود پوشیدہ صلاحیتوں کا اچھا اظہار کر سکتے ہیں تو یہ راستہ آپ کے لیے ترقی اور کام یابی کا راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چوں کہ اس کام کا تعلق آرٹ یا فن سے ہے اس لیے اس کا کوئی فکس فارمولا طے نہیں، لہٰذا اس وقت اچھے ویب سائیٹ ڈویلپرز ایک ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنے کے لیے دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔
اسی طرح آن لائن بیٹھ کر دیگر ممالک کے گاہکوں سے ان کی مرضی کے ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنے کا معاوضہ 200 ڈالر سے 1500 ڈالر تک ہو سکتا ہے، جب کہ اپنے تیارشدہ ٹیمپلیٹ کی قیمت فروخت 50 ڈالر سے 500 ڈالر تک فی کاپی ہوسکتی ہے، مطلب اگر ایک سال میں 100ڈالرز مالیت کی ایک سو کاپیاں فروخت ہوں تو اس شخص کو دس ہزار ڈالر سالانہ آمدنی ہوسکتی ہے۔ یعنی آپ کو ایک دفعہ محنت سے ویب سائیٹ ٹیمپلیٹ ڈیزائن کرنا ہے اور پھر اس ویب سائیٹ ٹیمپلیٹ کی فروخت سے آئندہ کئی سالوں تک آپ کو معاوضہ ملتا رہے گا،  اس کے علاوہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی آرگنائزیشنز، اخبارات، میڈیا ہاؤسز، مالیاتی ادارے، امپورٹ ایکسپورٹ، ای کامرس سے وابستہ اداروں، سوفٹ ویئر ہاؤسز، این جی اوز وغیرہ میں بھی اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
٭ آٹو کیڈ :

ریئل اسٹیٹ جسے عرفِ عام میں پراپرٹی کا کام بھی کہا جاتا ہے۔ واحد ایک ایسا شعبہ ہے جس نے گذشتہ کئی سالوں سےہندوستان  میں سب سے زیادہ شرح نمو دکھائی ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر اس وقت سب سے زیادہ نفع بخش صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اس صنعت میں کام کرنے والے افراد ترقی کے بیش بہا مواقع رکھتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس شعبے میں اچھی اور صاف ستھری ملازمت کے خواہش مند ہیں تو پھر آپ کو آٹوکیڈ سرٹیفکیٹ کورس یا آٹوانجنیئرنگ ڈپلوما ضرور کرنا چاہیے۔
اس شارٹ کورس میں آٹوکیڈ سافٹ ویئر میں کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ آٹو کیڈ کورس میں گھروں کے نقشے، مارکیٹ، پلازا، چھوٹے شاپنگ مال کے نقشے بنانا، فلیٹ، ہاؤسنگ سوسائٹی کا نقشہ بنانا جس میں گھر، روڈ سیوریج لائن الیکٹرک پلان بنانا اور فائنل ڈرائینگ Submit کرنا یعنی Submittion بنا کر PDF فائل میں کنورٹ کرنا ٹوٹل سٹیشن سے پوائنٹ آٹو کیڈ میں Draw کرنا، اس کے بعد ایکسل کے پوائنٹ کو آٹو کیڈ میں Drawکرنا یعنی تصوراتی ڈیزائن، ماڈل دستاویزات سول ڈرافٹنگ ہاؤس ماڈل الیکٹریکل ڈرائنگ مکینیکل ڈرائنگ وغیرہ بنانا سکھایا جاتاہے۔
٭ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ:

ٹیکسٹائل ڈیزائننگ ایک ایسا فن ہے جس میں کسی پہناوے کے حسن میں اضافہ کے لیے روایتی انداز سے ہٹ کر جدید، ڈیجیٹل اور تخیلی تیکنیکوں کے استعمال سے چیزوں کے قدرتی انداز بدلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سہ جہتی تیکنیکوں کو استعمال کرکے کسی بھی پہناوے کے حسن کو دوبالا کرنے کا جدید فن بھی ہے۔ جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کپڑے پر ڈیزائن سے ہی کپڑا ایک پراڈکٹ بنتا ہے جب کہ ڈیزائن خود کسی تصوراتی ہیئت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا اظہار تصویری خاکوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور یہ تصویری خاکے ایک اچھا ٹیکسٹائل ڈیزائنر ہی بنا سکتا ہے۔
ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی تعلیم بڑی اہمیت اور افادیت کی حامل ہے۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلوماکورس کے لیے طلباء و طالبات کا کم سے کم ہائی اسکول پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلوما ہولڈروں کی اس صنعت سے متعلق مختلف عہدوں، ریڈی میڈ ہوزری اور گارمنٹس کی بڑی بڑی کمپنیوں میں فیشن ڈیزائنر، فیشن کوآرڈینیٹر، سِلک مینیجر، مارکیٹنگ اور کنٹرولر کے عہدوں کے لیے اچھی ملازمت کے علاوہ خود روزگاری کے بھی بہتر امکانات ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ کپڑوں کے فیشن میں روزبروز ہونے والی تبدیلی نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے شعبے میں کیریئر بنانے کے انقلاب آفریں مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ طالبات کے لیے اس سرٹیفکیٹ کورس کا انتخاب زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
٭ ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز ڈیولپمنٹ:
اس سے مراد ایسے سوفٹ ویئرز کی تیاری کی مہارت حاصل کرنا ہے جو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز میں استعمال ہوسکیں، مثلاً کسی کمپنی کا اکاؤنٹ، پے رول سسٹم، اسکول یاکالج مینجمنٹ سسٹم، لائبریری مینجمنٹ سسٹم، وغیرہ۔ آپ اپنے کمپیوٹر میں جو بھی سوفٹ ویئر استعمال کرتے ہیں، مثلاً مائیکروسوفٹ آفس وغیرہ، یہ سب ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کہلاتے ہیں۔
ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز عموماً کسی ایک مخصوص آپریٹنگ سسٹمز کے لیے تیار کی جاتی ہیں، لیکن ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کو کچھ اس طرح بھی تیار کیا جاسکتا ہے کہ ایک سے زیادہ آپریٹنگ سسٹمز پر کام کرسکیں۔ ڈیسک ٹاپ ڈیولپمنٹ کے لیے بہت سی پروگرامنگ لینگویج استعمال ہوتی ہیں جن میں مائیکروسوفٹ کی ڈاٹ نیٹ، ویزول اسٹوڈیو (Visual Studio)، جاوا اور سی (C, #C) لینگویجز کی مارکیٹ میں زیادہ مانگ ہے۔ ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز میں مہارت رکھنے والے افراد ایسے سوفٹ ویئر پروگرام بھی تیار کر سکتے ہیں جو مخصوص مشینوں پر کام کرتے ہوں، مثلاً ٹیلی فون ایکسچینج، فوٹو کاپی مشین یاپرنٹر کے اندر موجود سوفٹ ویئر، جو صرف ایک ہی مخصوص کام کرتے ہیں۔ ایسے سوفٹ ویئرزـ ’’ایمبیڈیڈ سوفٹ ویئر‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس مضمون میں ’’سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ یا’’ ڈپلوما کورسز‘‘ کرنا یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کورس اُن طلباء وطالبات کے لیے زیادہ سہل ہوتا ہے جو ریاضی کے اچھی طالب علم ہوتے ہیں۔
٭ ویب ایپلی کیشنز ڈیولپمنٹ:
ویب ایپلی کیشنز ڈویلپمنٹ کے سرٹیفکیٹ کورس میں ویب ایپلی کیشنز بنانے کے بارے میں تخصیصی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ ویب ایپلی کیشنز اس قسم کے سوفٹ ویئرز کو کہا جاتا ہے جو براؤزرز پر چلتے ہیں۔ اس طرح کے سوفٹ ویئر کی خوبی یہ ہے کہ یہ تقریباً ہر طرح کی مشین پر استعمال کے قابل ہوتے ہیں، یعنی ڈیسک ٹاپ، ٹیبلٹ، اسمارٹ فون وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ براؤزر بیس ہوتے ہیں۔ جس بھی مشین میں براؤزر انسٹال ہو، یہ ایپلی کیشنز کام کرتی ہے۔ ان کو ڈیسک ٹاپ ایپلی کیشنز کے مقابلے میں زیادہ بہتر تصور کیا جاتا ہے، کیوںکہ ویب ایپلی کیشنز ہر طرح کے آپریٹنگ سسٹمز اور مشین وغیرہ پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس کی مارکیٹ بہت وسیع ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑی ویب سائٹس، خاص طور پر متحرک ویب سائٹس کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے لیے ویب ایپلی کیشنز تیار کرسکیں یا پہلے سے موجود کسی ویب ایپلی کیشن کو ان کی ضروریات کے مطابق تبدیل کر سکیں۔ ویب ایپلی کیشنز کی ڈیولپمنٹ کے لیے زیادہ تر کام ایچ ٹی ایم ایل، ایکس ایم ایل، پی ایچ پی، سی ایس ایس، جاوا سکرپٹ، اور ایس کیو ایل وغیرہ میں ہوتا ہے۔
٭ موبائل ایپلی کیشن ڈیولپمنٹ:
موبائل فون کے اندر جو مختلف طرح کے فنکشن استعمال کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر اسمارٹ فون میں ہم اپنی ضرورت کی جو ’’ایپس‘‘ استعمال کرتے ہیں، ان کی تیاری کی تعلیم ’’موبائل فون ایپلی کیشن ڈیولپمنٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں گوگل کے ’’اینڈروئیڈ‘‘ آپریٹنگ سسٹم کا راج ہے۔ اس کورس میں ایپ ڈویلپمنٹ کے لیے طلباو طالبات کو ’’جاوا‘‘ یا ’’سی پلس پلس‘‘ میں مہارت ہونی چاہیے، جب کہ اس شعبے میں’’ایپل‘‘ کا آئی او ایس آپریٹنگ سسٹم بھی موجود ہے، جو آئی فون کے بعد اب آئی پیڈ اور ایپل ٹی وی میں بھی استعمال ہو رہا ہے، اس میں کام میں مہارت پیدا کرنے لیے طلباء کو اس سرٹیفکیٹ کورس میں ’’آبجکٹیو۔ سی‘‘ لینگویج پڑھائی جاتی ہے۔ اسمارٹ فونز کے بڑھتے استعمال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کورس کو کرنے والے طلباء وطالبات کا مستقبل کس قدر شان دار ہوسکتا ہے۔
٭ ڈپلوما کورسز:
’’
سرٹیفکیٹ کورسز ‘‘ کے تحت جن شارٹ کورسز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اُن تمام کورسز میں کمپیوٹر سائنس میں ایک سال یا دو سال کے ڈپلوما کورسز بھی ریاستی ٹیکنیکل بورڈ سے منظورشدہ اداروں میں کرائے جاتے ہیں۔ ڈپلوما کورسز کی تکمیل کے بعد امیدوار، کمپیوٹر کی مختلف زبانوں اور ان کے استعمال سے واقف ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرام تیار کرسکتا ہے، اپنے ادارے کے لیے موزوں کمپیوٹر کا انتخاب کرسکتا ہے اور مائیکرو کمپیوٹر کو بہ خوبی استعمال کرسکتا ہے۔ کسی بھی ڈپلوما کورس میں داخلے کے لیے امیدوار کو کم از کم بارہویں جماعت میں کام یاب ہونا چاہیے۔ چند اداروں میں داخلے سے پہلے میلان انٹرنس کا امتحان ہوتا ہے اور کام یاب ہونے والے امیدواروں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے۔
٭ بی ایس سی کمپیوٹرسائنس:
یہ کمپیوٹر سائنس میں تین سال کا ڈگری کورس ہے۔ اسے آپ کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم کا نقطہ آغاز بھی قرار دے سکتے ہیں۔ہندوستان کی تمام بڑی یونیورسٹی  میں یہ ڈگری کورس کیا جاسکتا ہے۔
٭ ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس:
ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کا نصاب سافٹ ویئر سے متعلق امور پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں کمپیوٹر کا تعارف، ان کی مختلف اقسام، کمپیوٹر کی زبانیں، ان کے پروگرام اور نظری و عملی مضامین شامل ہیں۔
٭ کمپیوٹر کی آن لائن تعلیم:
جی ہاں! کمپیوٹر کی آن لائن تعلیم بھی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے طلباء و طالبات میں دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم تو خود احتسابی ہے کیوںکہ آن لائن کورسز میں آپ اپنے اُستاد خود ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے اُوپر آپ کو خود ہی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ دوسری چیز ہے مستقل مزاجی یعنی روزانہ وقتِ مقررہ پر کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کلاسیں لینا، کیوںکہ آن لائن کلاسیں لینے کے لیے کمپیوٹر آپ کو زبردستی اپنے سامنے تو بٹھا نہیں سکتا۔
اگر یہ دونوں کام آپ بخوبی نبھا سکتے ہیں تو کمپیوٹر کے آن لائن کورس کام یابی کے ساتھ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ آن لائن ویڈیو کورسز کے لیے ایک بڑی مشہور ویب سائٹ lynda.com ہے جو1995 سے کام کر رہی ہے اور lynda نامی ایک امریکی خاتون نے قائم کر رکھی ہے۔ اس کی کچھ ممبر شپ فیس ہے لیکن اس کے ویڈیو کورسز بہت معیاری ہیں۔ اس کے علاوہ مفت آن لائن کورسز کرنے کے لیے آئی ٹی درسگاہ سمیت دنیا بھر میں کئی مشہور ویب سائیٹس موجود ہیں ، جہاں سے آپ گھر بیٹھے بہ آسانی کمپیوٹر کے شارٹ کورسز کر سکتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت میں۔


💕پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں💕