کورونا وائرس کو سب سے پہلے سکاٹ لینڈ کی ایک خاتون نے دریافت کیا تھا جو ایک بس ڈرائیور کی بیٹی تھیں اور جنھوں نے سولہ برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔
جون المیڈا وائرس کی 'امیجنگ' کرنے کی بانی ہیں اور موجودہ عالمی وبا میں ان کی اس دریافت پر ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کی توجہ ہے۔
کووڈ 19 ایک نیا وائرس ہے لیکن یہ بھی کورونا وائرس ہی کی ایک قسم ہے جس کی ڈاکٹر المیڈا نے سنہ 1964 میں لندن کے ہسپتال سینٹ تھامس کی لیبارٹری میں شناخت کی تھی۔
جون ہارٹ جو ایک 'وائرولوجسٹ' تھیں سنہ 1930 میں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کے شمالی مشرق حصہ میں پیدا ہوئیں اور شہر کے اسی غریب علاقے میں ان کا بچپن گزرا۔
انھوں نے 16 برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا اور ان کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن انھیں گلاسگو کے ایک شفاخانے ’گلاسگو رائل انفرمری‘ میں لیبارٹری ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی تھی۔
بعد ازاں وہ اپنے کریئر کو آگے بڑھانے کے لیے لندن منتقل ہو گئیں جہاں سنہ 1954 میں انھوں نے وینزویلا سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ انریکیوز المیڈا سے شادی کر لی۔
عام نزلے پر تحقیق
اس جوڑے نے اپنی بیٹی کے ساتھ بعد میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سکونت اختیار کر لی۔ طب کے شعبے کے ایک مصنف جارج ونٹر کے مطابق ڈاکٹر المیڈا کو کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں سرطان پر تحقیق کے ادارے ’اونٹاریو کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ میں الیکٹران خوردبین کے بارے میں مہارت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
یہاں پر انھوں نے ایک ایسے طریقے کی بنیاد ڈالی جس میں اینٹی باڈیز کا استعمال کر کے وائرس کو زیادہ بہتر طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
جارج ونٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے برطانیہ نےانھیں وطن واپس آنے کی ترغیب دی اور سنہ 1964 میں واپس آ کر انھوں نے لندن کے سینٹ تھامس میڈیکل سکول میں ملازمت اختیار کر لی۔
یہ وہی ہسپتال ہے جہاں برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن حال ہی میں کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر داخل رہے تھے۔
لندن کے اس ہسپتال میں انھوں نے ڈاکٹر ڈیوڈ ٹائرل کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا جو عام نزلہ زکام پر ولٹشائر کاونٹی کے شہر سیلسبری میں تحقیق کر رہے تھے۔
جارج ونٹر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ٹائرل رضاکاروں سے حاصل کیے گئے نمونوں کا مشاہدہ کر رہے تھے کہ ان کی ٹیم کو معلوم ہوا کہ وہ کئی ایسے وائرس کی آفزائش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن کا تعلق عام نزلے زکام سے ہوتا ہے لیکن وہ تمام جراثیموں یا وائرس کا پتا نہیں لگا پائے۔
ایک نمونہ جس کی شناخت ’بی 814‘ کے طور پر کی گئی وہ سرے کاؤنٹی کے بورڈنگ سکول میں ایک طالب علم سے حاصل کیا گیا تھا۔
انھیں یہ بھی پتا چلا کہ وہ رضاکاروں میں عام نزلے زکام کی علامات منتقل کر سکتے ہیں لیکن وہ ان کو لیبارٹریوں میں معمول کے ’سیل کلچر‘ میں پیدا نہیں کر سکتے۔
رضا کاروں کی اس تحقیق میں یہ ثابت ہوا کہ ان کی ’آرگن کلچر‘ میں افزائش ہوتی ہے اور ڈاکٹر ٹائرل کو ایک جستجو ہوئی کہ کیا ان کو الیکٹران خوردبین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے یہ نمونے جون المیدہ کو بھیجے جنھوں نے وائرس کے ذروں کو ایک نمونوں میں دیکھا اور کہا کہ یہ 'انفلوئنزا' کے وائرس کی طرح کے ہیں لیکن بالکل ان جیسے نہیں ہیں۔
انھوں نے جس کی شناخت کی وہ پہلا انسانی کورونا وائرس بنا۔
جارج ونٹر نے کہا کہ ڈاکٹر المیدہ نے اس طرح کے ذرات پہلے بھی دیکھے تھے جب وہ چوہوں کے یرقان اور مرغیوں کی ’برونکائٹس‘ یعنی حلق اور پھیھڑوں کی وبا پر تحقیق کر رہی تھیں۔
لیکن ان کے مقالے کو جو ان کے ہم عصروں کے ایک جریدے میں رد کر دیا گیا جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ جو عکس ڈاکٹر المیڈا نے بنائے ہیں وہ انفلوئنزا وائرس کے ذرات کی بری تصاویر ہیں۔
اس ’بی 814‘ کی نسل کی نئی دریافت کو برٹش میڈیکل جنرل میں سنہ 1965 میں شائع کیا گیا اور وہ تصویر جو انھوں نے دیکھی تھی تو وہ جنرل وائرولوجی کے جریدے میں دو سال بعد جاری کی گئی۔
جارج ونٹر کے مطابق ڈاکٹر ٹائرل اور ڈاکٹر المیڈا جن کے ساتھ پروفیسر ٹونی واٹرسن جو سینٹ تھامس ہسپتال کے انچارج تھے، انھوں نے مل کر اس کو کورونا وائرس کا نام دیا کیونکہ اس کے اردگرد ’کروان‘ یا تاج کی شکل کا ہالہ تھا۔
ڈاکٹر المیڈا نے بعد میں لندن پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سکول میں کام کیا جہاں انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔
ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا اختتام ’ویکلم انسٹی ٹیوٹ‘ میں ہوا جہاں وائرس کی ’ایمجنگ‘ کے شعبے میں ان کے نام سے بہت سے ’پیٹنٹ‘ منسوب کئے گئے۔
ویلکم انسٹی ٹیوٹ کو چھوڑنے کے بعد ڈاکٹر المیڈا یوگا کی تربیت دینے لگی لیکن وائرولوجی کے شعبے میں مشاورت کام کرتی رہی اور سنہ 1980 میں انھوں نے ایچ آئی وی وائرس کی انوکھی تصویر بنانے میں مدد کی۔
جون المیڈا 77 سال کی عمر میں سنہ 2007 میں انتقال کر گئیں۔
اب ان کے انتقال کے 13 سال بعد آخر کار ان کے کام کا اعتراف کیا جا رہا ہے جس کی وہ اس کے بانی کے طور پر حق دار تھیں اور ان کے کام کی وجہ سے ہی جس وبا نے آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔
بشکریہ BBC