*مثبت سوچ کیسے پیدا ھوتی ھے؟*
میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہیں
کہ کچن میں دودھ جلنے کی بو آتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*دو ردعمل ممکن ہیں*۔
*مثبت رد عمل:*
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں نے جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹائی بھول گئی؟‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘
*منفی رد عمل:*
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں؟‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تا کہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہینڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کرکے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بدبودار بناتے ہیں۔ ہم اپنے امن سکون کے خود خالق ہیں۔
’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘ (134) سورة آل عمران
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6592)
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’میں جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔ (سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1396)
جھگڑا امن و سکون کو تباہ کرتا ہے۔ لہذا جو بندہ دوسروں کو معاف کرکے یا خود اپنی غلطی کو تسلیم کرکے یا پھر خود حق پر رہنے کے باوجود اپنا حق صرف اس لئے چھوڑ دے کہ جھگڑا نہ ہو تو وہ ماحول کو خوشگوار اور پُرامن بناتا ہے جس کے بدلے میں ایسے بندے کیلئے امن کی جگہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت دی گئی ہے۔
لہٰذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے ماحول کو خوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس کی توفیق دے۔ آمین۔
*اصول: مثبت سوچ خوشگوار ماحول، پرسکون زندگی*
No comments:
Post a Comment