HOME

Sunday, 7 June 2020

روندے چِپاں نوں۔۔۔۔۔


پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں


روندے چِپاں نوں۔۔۔۔۔

تحریر: ندیم رزاق کھوہارا

جتنی دیر میں آپ یہ تحریر پڑھیں گے اتنی دیر میں فیسبک کے ڈیٹا سینٹرز میں 33 ہزار گیگا بائٹس پر مشتمل ڈیٹا کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ جن میں سے دو میگا بائیٹس آپ کے بھی ہوں گے۔ فیسبک پر روزانہ تقریباً چار پیٹا بائٹس ڈیٹا جمع ہوتا ہے۔  یہ جاننے کے لیے کہ ایک پیٹا بائٹ میں کتنا ڈیٹا ہوتا ہے یوں سمجھ لیجیے کہ اگر آپ ایک مکمل ایچ ڈی ویڈیو چوبیس گھنٹے ریکارڈ کریں اور یہ ریکارڈنگ مسلسل ساڑھے تین سال تک جاری رہے تب جا کر ایک پیٹا بائٹ ڈیٹا بنے گا۔ 

قارئین گیگا بائٹس سے تو ضرور واقف ہوں گے۔ ایک پیٹا بائٹس میں دس لاکھ گیگا بائٹس ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے فیسبک کے پاس سینکڑوں ایکڑ پر محیط چھ سے زائد بڑی عمارات ہیں۔ جنہیں ڈیٹا سینٹرز کہا جاتا ہے۔ ان عمارتوں میں بے شمار بڑے بڑے ریک ہیں۔ اور ہر ریک میں بیسیوں ڈیٹا سرورز ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک فیسبک کے پاس تقریباً تیس ہزار سے زائد ڈیٹا سرورز ہیں۔ اور ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سرورز چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ سے جڑے رہتے ہیں۔ انہیں توانائی فراہم کے لیے بڑے بڑے جنریٹرز اور ٹھنڈا رکھنے کے لیے باقاعدہ کولنگ کے نظاموں کی تنصیب کی گئی ہے۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ان عمارتوں کا سلسلہ اب دراز ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مراکز اب امریکہ سے باہر دیگر ممالک میں بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ اور ان میں روزانہ پیٹا بائٹس کی شکل میں ڈیٹا جمع ہو رہا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اس سب کے سامنے آپ کو اپنے دو میگا بائیٹس بہت حقیر معلوم ہو رہے ہوں گے۔ لیکن یہ دو ایم بی آپ کا سب کچھ ہیں۔ آپ کا دماغ ہیں۔ وہ دماغ جو آپ خود اپنے ہاتھوں سے گروی رکھوا رہے ہیں۔ آپ کی شناخت، آپ کی شخصیت، آپ کی نفسیات، حتی کہ آپ کے خیالات بھی۔ بات اگر ڈیٹا محفوظ رکھنے کی حد تک ہوتی تو اور بات تھی لیکن ان بڑے بڑے جناتی ڈیٹا سینٹرز میں پچیدہ ترین الگورتھز بھی کام کر رہے ہیں۔ جو آپ کی جانب سے پیدا کیے گئے ڈیٹا کی جانچ کرتے ہیں اور پھر اسی کی مناسبت سے آپ کی شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کے دو ایم بی میں آپ کے لائیک، کمنٹ، سرچ اور جو کام آپ فیسبک پر کر رہے ہیں وہ سب شامل ہوتا ہے۔ 

ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ میں تو فیسبک پر لائیک کمنٹ کرتا ہی نہیں۔ میرے بارے میں کیسے جان لے گی؟  تو حضرت آپ اکاؤنٹ بنانے کے بعد پورا سال فیسبک پر کسی ایک پوسٹ کو بھی لائیک، کمنٹ نہ کیجیے۔ تب بھی یہ ایپ جانتی ہے کہ آپ اس دوران کیا کیا کرتے رہے۔ آپ کیا شوق سے پڑھتے ہیں۔ آپ کو کیا پسند ہے کیا نہیں۔ یہاں تک کہ آپ فیسبک کے علاوہ کیا کیا کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔ نہیں یقین آ رہا؟ تو ابھی فیسبک اکاؤنٹ سیٹنگز میں جا کر فیسبک سے باہر کی سرگرمی یعنی 
Off Facebook Activity
پر کلک کیجیے۔ اور دیکھیے کہ آپ فیسبک کے علاوہ اپنے موبائل سے کیا کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسے پتہ نہ چلے تو آپ ڈاؤنلوڈ مائی ایکٹیویٹی کے ذریعے تمام معلومات کو ایک فائل کہ صورت ڈاؤنلوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے یہ تو محض ایک جھلک ہے کہ فیسبک ایپ سے ہٹ کر آپ کے بارے میں کیا جانتی ہے۔ اصل میں کیا کچھ جانتی ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ 

آپ گوگل سرچ کا استعمال نہیں کرتے۔ کوئی گیم نہیں کھیلتے۔ کچھ بھی نہیں کرتے۔ بس موبائل کو انٹرنیٹ آف کیے گھومتے رہتے ہیں کہ کبھی کبھار آن کر کے کوئی پوسٹ دیکھ لیں گے تب بھی آپ کی لوکیشن سمیت بہت سارا ڈیٹا اس کے ڈیٹا سینٹر میں اپڈیٹ ہو چکا ہو گا۔ حال اور مستقبل کو چھوڑیے، میں نے جن عمارتوں کا اوپر تذکرہ کیا ہے ان میں ایک ایسی عمارت ہے جسے ڈیٹا کا کولڈ اسٹور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کا اور ہمارا ماضی پڑا ہے۔ دس سال پرانی معلومات بھی موجود ہیں۔ یہاں کے سرور عموماً سوئے رہتے ہیں۔ اور تب جاگتے ہیں جب ہم ماضی میں دیکھنا چاہیں۔ لیکن الگورتھم یہاں بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ نہیں سوتے۔ کیونکہ وہ ہمیں ٹریک کر رہے ہیں۔

فیسبک کو ایک طرف رکھیں گوگل، مائیکروسافٹ، ایپل تمام بڑے ادارے ہمیں ہمہ وقت ٹریک کر رہے ہیں۔ ہماری آن اور آف لائن ایکٹیویٹی ان کی نظر میں۔۔۔۔۔ میگا چھوڑ گیگا بائٹس کی شکل میں ہمارا ڈیٹا ان کے پاس پڑا ہے۔ اور مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 
روندے چِپاں نوں۔۔۔۔۔

حضرات آپ کی شخصیت، خیالات اور رجحانات جاننے کے لیے بل گیٹس کو آ کر آپ کے اندر چِپ منتقل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ ہی عالمی سطح کا ڈرامہ کھڑا کرنے کی ضرورت۔۔۔۔ وہ یہ کام پہلے ہی کر رہے ہیں۔ اور جہاں تک کنٹرول کرنے کی بات ہے تو یہ آپ کی بھول ہے کہ آپ آزادی سے سوچتے ہیں۔ بھیڑچال، ٹرینڈنگ اور میڈیا پروپیگنڈے کے اس دور میں آپ وہی سوچتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ اور وہی کرتے ہیں جو وہ کروانا چاہتے ہیں۔ یہ بات مبالغہ آرائی لگتی ہو گی۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ ایک بار حالیہ تاریخ میں سامنے آنے والے کیمرج اینالاٹیکا سمیت دیگر فیسبک اسکینڈلز کا مطالعہ کر لیں۔ ہلکا سا اندازہ ہو جائے گا کہ میری بات میں کتنی مبالغہ آرائی ہے۔ یہ جو سازشی نظریات گھڑے جاتے ہیں یہ بھی وہیں سے درآمد شدہ اور جان بوجھ کر پھیلائے جاتے ہیں۔ نہ یقین آئے تو بل گیٹس کے حوالے سے حالیہ افواہوں کے بعد اس کی فاؤنڈیشن کی پہلے سے بڑھتی اہمیت پر سرچ کر لیجیے۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ ان اداروں کا وہی حال ہے کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟
اور بدقسمتی سے ہم اپنی دانست میں انہیں بدنام کرنے کے چکر میں مزید نام دے رہے ہیں۔ 

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ ہم کیا کریں۔ ہمیں فیسبک یا سوشل میڈیا کا استعمال ترک نہیں کرنا بلکہ باہر سے آنے والے سازشی نظریات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی بجائے حقیقت کو سمجھنا ہو گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جدید دور میں ہماری حیثیت ایک "ڈیجیٹل اینٹٹی" سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اپنے مقام کو منوانا ہو گا۔ ہائے ہائے کرنے کی بجائے اپنے آپ کو اپگریڈ کریں۔ اس قابل کریں کہ آپ جدید دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ جان رکھیں کہ آپ کے اندر سے ایمان کی جین نکالنے کے لیے کسی کو چِپ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چند لائیکس اور کمنٹس کی خاطر اپنا ایمان بیچ ڈالنے والوں کے لیے کرونا جیسی عالمی وباء پیدا کرنے کی کسے ضرورت ہے؟

شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا لینے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنے اندر ہمت پیدا کیجیے۔ خود کو اس قابل کیجیے کہ دنیا آپ کی چوکھٹ پر دستک دے۔ ایک دن فیسبک بند ہو جائے تو لوگ ٹکریں مارتے پائے جاتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں اس قابل ہو جاتے کہ اپنے آپ کو ڈیجیٹل دور کے مطابق ڈھال لیں؟ خود میں جدت لا کر، تحقیق و دریافت کے ذریعے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیں۔ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہو چکے ہیں۔ بغیر ڈرائیور ہائبرڈ اور اڑتی کاریں چند قدم کے فاصلے پر ہیں۔ فائیو جی، اشیائی انٹرنیٹ اور ورچول ریالٹی (مجازی حقیقت) دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ریموٹ ورکنگ اور ٹیلی تفریح کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت انقلاب برپا کرنے کو ہے۔ جلد یا بدیر ان چیزوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔ تو پھر کیوں نہ آج اور ابھی سے اس کی یوں ابتداء کی جائے کہ سائنس و ٹیکنالوجی پر تحقیق کا میدان ہمارے تصرف میں ہو؟

طویل تحریر کے لیے معذرت کیونکہ ہمیں حقیقت سے روشناس کرواتی طویل تحریریں پڑھنے کی عادت نہیں جبکہ سازشی نظریات پر لکھی لمبی لمبی تحریریں پڑھنے کا شوق ہے۔ حالانکہ سازشی نظریات گھڑنے والوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو سارا سال نشہ کیے سوتا رہے اور جب بھی کوئی اہم معاملہ ہو تو اسے سازشِ اغیار کے کھاتے میں ڈال کر پھر سے آنکھیں موند لے۔ 

آخر میں یہی کہوں گا کہ زمانے کی چال سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو آنکھیں موند کر پیچھے بھی نہ رہیے۔ ساتھ چلنے کی ہمت پیدا کیجیے۔

 اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیے۔
(ندیم رزاق کھوہارا)


No comments:

Post a Comment