HOME

Showing posts with label URDU. Show all posts
Showing posts with label URDU. Show all posts

Monday 18 May 2020

ارطغرل غازی




*ارطغرل غازی پر اردو کا پہلا کتابچہ*

*آج کل ترکی ڈراما "ارطغرل غازی" کی دھوم پوری دنیا میں ہے. ارطغرل غازی اسلامی تاریخ کے ایک بہادر اور انصاف پرور جنگجو تھے. 1937 میں علامہ اقبال نے اپنے رفقاء کو اسلامی شخصیات کے سوانحی کوائف مرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا. اسی مشورے کے تحت "چراغ حسن حسرت" نے بچوں کے لیے ارطغرل غازی کے سوانحی کوائف مختصراً مگر دلچسپ پیرائے میں تحریر کیے تھے. آج یہی کتابچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے. امید ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے.*

Wednesday 13 May 2020

اردو زبان کی ابتداء




اردو زبان کی ابتداء
زبان اردو کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداء کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداء کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
فہرست 
1 دکن میں اردو
2 سندھ میں اردو
3 پنجاب میں اردو
4 دہلی میں اردو
5 مجموعی جائزہ
دکن میں اردو
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالابار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔“
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے۔ طلو ع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر، مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔
سندھ میں اردو
یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں:
”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔“
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل“ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوےٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین:
”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔“
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو
حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتداء پنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراء کا کلام پیش کیا ہے۔ جس میں پنجابی،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ء سے 1026ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ءمیں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے، علماء اور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاںکی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“
مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ء میں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی۔
تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں: ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“
مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بناء پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔
الغرض اگر ہم پروفیسر شیرانی کی تحقیق پر تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ واقعی اردو اپنی ہیئت ساخت اور صرف و نحو کی خصوصیات کی بنا پر پنجابی سے قریب تر ہے۔ مثلاً
۱۔ اردو اور پنجابی میں تذکیر و تانیث کے قواعد یکساں ہیں۔ مثلاً اکثر الفاظ جو الف پر ختم ہوں اگر ان کی تانیث کرنی مقصود ہو تو ’’الف ‘‘کو ’’ ی‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً بکرا، بکری۔ گھوڑا، گھوڑی۔ کالا ، کالی وغیرہ
2۔ مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ یعنی فعل امر کے آخر میں ’’نا‘‘ کے اضافے سے مصدر بنایا جاتاہے۔
3۔ فعل تذکیر و تانیث دونوں میں اپنے فاعل کی حالت کے مطابق آتا ہے۔ مثلاً گھوڑی آئی (اردو) کوڑی آئی (پنجابی) لڑکا آیا (اردو) منڈا آیا( پنجابی)
4۔فعل لازم سے فعل متعدی بنانے کے قاعدے بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہیں جیسے سیکھنا سےسکھانا (اردو)، سکھنا سے سکھانا (پنجابی) بیٹھنا سے بٹھانا (اردو) اور بہنا سے بہانا (پنجابی) اس کے علاوہ ماضی مطلق، ماضی احتمالی شکیّہ، مضارع، مستقبل کے اصول، مضارع، امر کے قاعدے، معروف و مجہول، دعائیہ، ندائیہ کے اصول و ضوابط دونوں زبانوں میں یکساں ہیں۔
یاد رہے کہ ’’پنجاب میں اردو‘‘ کی اشاعت سے قبل مولانا محمد حسین آزاد کے پیش کردہ نظریے کو ہی قبولیت عام حاصل تھی مگر حافظ صاحب کی کتاب نے تحقیق کے تمام تر دروازے پنجاب کی سرزمین کی طرف وا کر دئیے۔ خود حضرت علامہ محمد اقبال کو جب نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’دکن میں اردو‘‘ پیش کی تو انہوں نے کہا: ’’ غالباً پنجاب میں بھی کچھ پرانا مسالہ موجود ہے۔ اگر اس کے جمع کرنے میں کسی کو کامیابی ہو گی تو مورخ اردو کے لیے نئے سوالات پیدا ہوں گے‘‘۔
پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نوسو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
حافظ محمود شیرانی کی تالیف ”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداء کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداء کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو
اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاء میں تو مانی جا سکتی ہے ابتداء اور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقاء میں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداء کا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کا آغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔“
ان نظریات کے علاوہ میر امن، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ
اردو کی ابتداء کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

بشکریہ ویکیپیڈیا



Sunday 26 April 2020

انسانی جسم کا خلاصہ



💞انسانی جسم  کا خلاصہ 💞




1: ہڈیوں کی تعداد --------------206۔
2: پٹھوں کی تعداد --------------639۔
3: گردوں کی تعداد-------------- 2۔
4: دودھ دانت کی تعداد------------ 20۔
5: پسلیوں کی تعداد------------ 24 (12 جوڑی)
6: ہارٹ چیمبر کی تعداد------------' 4۔
7: بڑی دمنی شہ رگ۔
8: عام بلڈ پریشر -----------120 / 80mmHg۔
9: خون کی پییچ----------------- 7.4
10: ریڑھ کی ہڈی میں کشیریا کی تعداد----- 33
11: گردن میں کشیریا کی تعداد---------- 7۔
12: درمیانی کان میں ہڈیوں کی تعداد------ 6۔
13: چہرے میں ہڈیوں کی تعداد۔............................14
14: کھوپڑی میں ہڈیوں کی تعداد۔---------22
15: سینہ میں ہڈیوں کی تعداد۔-----------25
16: ہتھیاروں میں ہڈیوں کی تعداد--------- 6۔
17: انسانی بازو میں پٹھوں کی تعداد-------- 72۔
18: دل میں پمپوں کی تعداد------------- 2۔
19: سب سے بڑی عضو کی جلد--------------
20: سب سے بڑا غدود جگر----------------
21: سیل کی سب سے بڑی زنانہ اووم۔----------
22: سب سے چھوٹا سیل مرد نطفہ۔-----------
23: ہڈیوں کے سب سے چھوٹے ٹکڑے----------
24: پہلے آرگنٹڈ ہارٹ کی پیوند کاری ہوئی۔-------
25: چھوٹی آنتوں کی اوسط لمبائی --------7m۔
26: بڑی آنتوں کی اوسط لمبائی-------- 1.5 میٹر۔
27: نئے پیدا ہوئے بچے کا اوسط وزن -----2.6 کلوگرام۔
28: ایک منٹ میں پلس کی شرح------- 72 بار۔
29: عام جسم کا درجہ حرارت ----(C ° 37)  (98.4 F °)
30: اوسطا خون کا حجم---------- 4 سے 5 لیٹر۔
31: آر بی سی کی زندگی کا دورانیہ ------120 دن۔
32: ڈبلیو بی سی کی زندگی کا دورانیہ 13 سے 20 دن۔
33: حمل کی مدت---------- 280 دن (40 ہفتہ)
34: انسانی پاؤں میں ہڈیوں کی تعداد -------33۔
35: ہر کلائی میں ہڈیوں کی تعداد ---------8۔
36: ہاتھ میں ہڈیوں کی تعداد----------- 27۔
37: سب سے بڑی اینڈوکرائن غدود تائرائڈ۔
38: سب سے بڑا لیمفاٹک عضو تللی۔
39: دماغ سیربرم کا سب سے بڑا حصہ۔
40: سب سے بڑا اور مضبوط ہڈی فیمر۔
41: چھوٹی چھوٹی پٹھوں کے اسٹیپیڈیوس (درمیانی کان)
41: کروموسوم--------- 46 (23 جوڑی) کی تعداد
42: نئے پیدا ہوئے بچے میں ہڈیوں کی تعداد---- 306۔
43: خون کی چوکیداری ----------4.5 سے 5.5۔
44: یونیورسل ڈونر بلڈ گروپ O....
45: یونیورسل وصول کنندہ بلڈ گروپ اے بی۔
46: سب سے بڑا ڈبلیو بی سی مونوسیٹ۔
47: سب سے چھوٹی ڈبلیو بی سی لیمفوسیٹ۔
48: پولیسیٹیمیا نامی آر بی سی گنتی میں اضافہ کریں۔
49: جسم میں بلڈ بینک تللی ہے۔
50: غیر نیوکلیٹیڈ بلڈ سیل آر بی سی ہے۔
51: بون میرو میں تیار کردہ آر بی سی۔
52: دریائے حیات کو خون کہا جاتا ہے۔
53: عام بلڈ کولیسٹرول کی سطح 250 ملی گرام / ڈی ایل۔
54: خون کا رقیق حصہ پلازما ہے۔
55: عام بلڈ شوگر --------100 ملی گرام / ڈی ایل




💞پوسٹ اچھی لگے تودوسروں کی بھلائ کے لئے شیئر ضرور کریں💞






بروڈکاسٹ






بروڈکاسٹ کی فہرستیں استعمال کرنے کا طریقہ
بروڈکاسٹ کی فہرست کی خصوصیت سے آپ ایک پیغام بیک وقت اپنے کئی روابط کو بھیج سکتے ہیں۔ بروڈکاسٹ کی فہرستیں پیغام وصول کنندگان کی محفوظ شدہ فہرستیں ہوتی ہیں جنہیں آپ بار بار بروڈکاسٹ پیغامات بھیج سکتے ہیں اور ہر بار وصول کنندگان کو الگ سے منتخب نہیں کرنا پڑتا ہے۔

بروڈکاسٹ کی فہرست بنائیں

  1. ‏WhatsApp >   > نئی بروڈکاسٹ پر جائیں۔
  2. ان رابطوں کو تلاش یا منتخب کریں جنہیں آپ شامل کرنا چاہتے ہیں۔
  3. چیک کے نشان  پر ٹیپ کریں۔
اس طرح بروڈکاسٹ کی ایک نئی فہرست بن جائے گی۔ جب آپ بروڈکاسٹ کی فہرست میں پیغام بھیجیں گے تو وہ فہرست میں شامل ان تمام وصول کنندگان کو بھیجا جائے گا جن کے فونز کی ایڈریس بک میں آپ کا نمبر محفوظ ہوگا۔ وصول کنندگان اس پیغام کو ایک عام پیغام کی صورت وصول کریں گے۔ جب وہ جواب دیں گے تو یہ آپ کی چیٹس کی اسکرین پر ایک عام پیغام کی طرح نظر آئے گا۔ ان کا جواب بروڈکاسٹ کی فہرست میں موجود دوسرے وصول کنندگان کو نہیں بھیجا جائے گا۔
نوٹ: صرف وہی روابط آپ کا بروڈکاسٹ پیغام وصول کریں گے جنہوں نے آپ کو اپنے فون کی ایڈریس بک میں شامل کیا ہوا ہو۔ اگر آپ کے رابطے کو آپ کے بروڈکاسٹ پیغامات نہیں مل رہے تو یقینی بنائیں کہ اس نے آپ کو اپنی ایڈریس بک میں شامل کر رکھا ہے۔ بروڈکاسٹ کی فہرستوں سے ایک شخص ایک وقت میں کئی لوگوں کو پیغام بھیج سکتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے وصول کنندگان کسی گروپ گفتگو میں حصہ لیں تو آپ کو اس کے بجائے گروپ چیٹ بنانی چاہیے۔

بروڈکاسٹ کی فہرست میں ترمیم کریں

  1. اپنی بروڈکاسٹ کی فہرست کھولیں۔
  2. بروڈکاسٹ کی فہرست کی معلومات کی اسکرین پر آپ یہ کر سکتے ہیں:
    • ترمیم کریں  پر ٹیپ کر کے اپنی بروڈکاسٹ کی فہرست کا نام تبدیل کر سکتے ہیں۔
    • وصول کنندہ کو شامل کریں...  پر ٹیپ کر کے وصول کنندگان کو فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔
    • وصول کنندگان میں ترمیم کریں > پر ٹیپ کر کے جن روابط کو آپ ہٹانا چاہتے ہیں ان کے آگے "x" > پر ٹیپ کریں پھر چیک کے نشان  پر ٹیپ کر کے وصول کنندگان کو ہٹا سکتے ہیں۔

بروڈکاسٹ کی فہرست حذف کریں

  1. آپ جس بروڈکاسٹ کی فہرست کو حذف کرنا چاہتے ہیں اس پر ٹیپ کریں اور دبا کر رکھیں۔
  2. بروڈکاسٹ کی فہرست حذف کریں  > حذف کریں پر ٹیپ کریں۔ آپ میڈیا کو حذف کرنے یا نہ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
متبادل طور پر، وہ بروڈکاسٹ کی فہرست کھولیں جسے آپ حذف کرنا چاہتے ہیں، پھر بروڈکاسٹ کی فہرست کے نام یا وصول کنندگان > بروڈکاسٹ کی فہرست حذف کریں > حذف کریں پر ٹیپ کریں۔
یہ آرٹیکل پسند آیا۔۔ ؟
کومنٹس کریں