انسانی دماغ ٹھوس نہیں ہوتا بلکہ لچکدار ہوتا ہے اور اسکا %73 حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکا وزن صرف 1300گرام سے 1400 گرام تک ہوتا ہے۔ اور حیران کن طور پر یہ ایک کھرب خلیات پر مشتمل ہوتا ہے یہ تعداد قریب قریب اتنی ہی ہے جتنے ہماری کہکشاں ملکی وے میں ستارے ہیں۔ ان خلیات کی بھی دس ہزار اقسام ہیں اسکا سائز مکمل جسم کا صرف %2 ہوتا ہے لیکن یہ کل توانائی کا بیس فیصد استعمال کرتا ہے اسکے مختلف حصے اپنا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں____
دماغ کا ہر خلیہ اپنے آپ میں کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے پھر یہ سارے آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں ان میں Networking ,ھوتی ھے۔ جس کی وجہ سے یہ مل کر فیصلہ کرتے ہیں یاداشت محفوظ کرنے والا حصہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ 2.5 پیٹا بائیٹ میموری محفوظ کر سکتا ھے۔ سادہ الفاظ میں تقریباً پچیس لاکھ گیگا بائیٹس کا ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ھے____
دماغ کے خلیات کو خون سپلائی کرنے والی نالیاں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ بمشکل نظر آتی ہیں لیکن صرف دماغ میں انکی طوالت اتنی ہوتی ہے کہ بالفرض محال انکو آپس میں جوڑ دیا جائے تو 120000 کلومیٹر لمبائی بنے گی دماغی خلیات ایک دوسرے کو 432 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برقی بیغامات بھجواتے ہیں جو کہ فرمولا ون ریس کی اسپیڈ سے بھی زیادہ اسپیڈ ہے____
دماغ کو آکسیجن کی سپلائی روک دی جائے تو اسکے خلیات مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو دماغ پھر بھی اپنا کام جاری رکھتا ہے دماغ انسان کو زندہ رکھنے کی آخری حد تک جنگ کرتا ہے۔ خود دماغ کو یقین نہیں آتا کہ میں مر رہا ہوں۔ ادھر ادھر خون کی نالیوں میں بچی کھچی آکسیجن کھینچ کر دماغ انسان کے مرنے کے بعد بھی تقریباً دس منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ اور بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر خون اور آکسیجن کی سپلائی کی بندش بلآخر دماغ کو موت کی ابدی وادیوں میں گہری نیند سلا دیتی ھے____!!
No comments:
Post a Comment