HOME

Friday 8 April 2022

یاد کے بے نشاں جزیرے


یاد کے بے نشاں جزیرے

تحریر: ڈاکٹر یونس خان

اوائل موسمِ خزاں کی یہ ایک اداس شام تھی۔ وہ نوجوان، ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ لڑتے لڑتے ہمت ہار چکا تھا۔ اس کے والدین اور اسکے معالج کی ہمت افزائی نے اسے ہمیشہ جینے کا حوصلہ دیا، مگر آج انہوں نے بھی آخری فیصلہ کر لیا تھا۔ نوجوان کو اس عذابِ مسلسل سے نجات دلانے کا فیصلہ۔۔۔۔۔ ایک ایسے آپریشن کا فیصلہ جس میں زندگی کی طرف واپسی کے امکانات نصف فیصد سے بھی کم تھے، اور زندگی ملنے کی صورت میں بھی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ کیا کچھ کھونا پڑے۔ مگر وہ پہلے ہی اتنا کچھ کھو چکا تھا کہ اس کو اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں رہنے والا یہ نوجوان، ہنری مولیسن، ابھی صرف سات برس کا تھا کہ ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں مرگی epilepsy جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گیا۔ مسلسل علاج کے باوجود یہ مرض ختم نہ ہو سکا۔ سولہ برس کی عمر میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا، یہاں تک کہ ستائیس برس کی عمر تک یہ ناقابلِ برداشت ہو گیا۔ 

اسے ہارٹ فورڈ Hartford ہاسپٹل کے شعبہ نیوروسرجری میں بھیجا گیا جہاں معروف نیوروسرجن ولیم بیچر سکووِلے نے مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد سرجری تجویز کی۔ مگر یہ سرجری نہایت خطرناک تھی اور دنیا میں اس سے پہلے کسی کو اس سرجری سے نہیں گزارا گیا تھا۔ اس میں دماغ کے ان متاثرہ حصوں کو نکال باہر کرنا تھا جو کہ مرگی کے مراکز بن چکے تھے۔ یہ حصے، دائیں اور بائیں دونوں جانب کے میڈئیل ٹیمپورل لوب تھے، جو کہ انتہائی اہم دماغی ساخت، سیریبرل ہیمسفئیر کے حصے تھے۔ چنانچہ یہ آپریشن کر دیا گیا۔ 

نیوروسرجری کی تاریخ کا یہ سب سے اہم آپریشن 1953 میں کیا گیا۔

یہ آپریشن اس لحاظ سے کامیاب ٹھہرا کہ اس کے نتیجے میں ہنری مولیسن کو مرگی سے نجات مل گئی، مگر اسکی زندگی ایک ایسے عجیب و غریب تلاطم میں مبتلا ہوئی کہ جس سے وہ کبھی نہ نکل سکا۔ اگرچہ وہ مزید پچپن سال جیا مگر اس حال میں کہ اس کی تمام تر یادوں کا سرمایہ ابتدائی ستائیس سالوں میں ہی منجمند ہو کر رہ گیا۔ اسے ان گزرے ستائیس برسوں کی تو ہر بات یاد تھی مگر اس کے بعد وہ کسی بھی بات کو اپنی یاداشت کا حصہ نہ بنا سکا۔ ہر گفتگو، ہر تحریر، ہر واقعہ اسکی یاداشت میں صرف چند ساعتوں تک نقوش بناتا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسکی یاداشت سے محو ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اسے اپنا کمرہ، اس کا راستہ، اس کی راہداری تک یاد نہ رہتی۔ اسکے کیس کی میڈیکل اہمیت کے پیشِ نظر اسے نیورولوجیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں مستقل سکونت دی گئی اور پیرامیڈیکل کی ٹیم اس کی مسلسل نگہداشت کے لئے مقرر کی گئی۔

یاداشت کے اس شدید نقصان کے باوجود حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ اب بھی نئی مہارتیں سیکھنے کی اہلیت رکھتا تھا، اگرچہ ان مہارتوں کو وہ یاداشت کا حصہ نہیں بنا سکتا تھا مگر بار بار دہرانے سے اس میں نئی مہارت پیدا ہو جاتی تھی۔

اسکی سرجری میں ایسا کیا ہوا کہ اسکی یاداشت میں انقلابی تبدیلی آئی۔ میڈئیل ٹیمپورل لوب میں آخر ایسی کیا چیز ہوتی ہے کہ اس کے نہ ہونے سے انسان نئی چیزیں یاد رکھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہو جاتا ہے۔ یہ ہیں دو اسٹرکچرز۔ پہلا ہپوکیمپس Hippocampus اور دوسرا ایمگڈالا Amygdala۔

اس سرجری کے بعد پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ دماغ میں یاداشت کے ایک نہیں کئی مراکز ہیں اور ان میں تو بعض بے نشاں جزیروں کی مانند ہیں جو دماغ کے کئی حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سائنسدانوں نے یاداشت کی بھی درجہ بندی کرکے اسے دو اقسام میں منقسم کیا۔

🔹یاداشت یا میموری کی اقسام🔹

یاداشت کی دو اقسام ہیں۔ مختصر مدتی یاداشت اور طویل مدتی یاداشت۔
طویل مدتی یاداشت، جو ہمارے دماغ میں ہمیشہ یا عرصۂ دراز تک رہتی ہے، کی مزید دو اقسام ہیں۔
1۔ شعوری یاداشت یا explicit memory
2۔ مخفی یاداشت یا implicit memory

🔹شعوری یاداشت Explicit Memory🔹
یہ یاداشت کی وہ قسم ہے، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور جسے ہم بیان کر سکتے ہیں، دہرا سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں یا محض سوچ سکتے ہیں۔

اس کی مزید دو اقسام ہیں۔ 
1۔ واقعاتی episodic 
2۔ حقائق پر مبنی semantic

🔹ایپی سوڈک میموری کا تعلق واقعات کے تانے بانے سے ہے۔ مثلا گذشتہ شام ہم نے کن دوستوں سے ملاقات کی۔ پچھلی عید ہم نے کیسے گزاری؟ کس قسم کے کپڑے بنوائے وغیرہ۔ اس میموری کا تعلق دماغ کے اہم حصے ہپو کیمپس اور نیوکارٹیکس سے ہے۔ یہ وہی ہپوکیمپس ہے جسے ہنری مولیسن کے دماغ سے نکال دیا گیا تھا۔ 

نیوکارٹیکس، دماغ کے سب سے بڑے حصے سیریبرل ہیمسفئیر کی سب سے بالائی پرت ہے۔ یہی وہ شاہکار ہے جہاں انسانی عقل و دانش کے بے مثل جہاں سموئے ہوئے ہیں۔ اس حصے کا تعلق سوچنے، سمجھنے، غوروفکر کرنے، فیصلہ کرنے، اشیاء، افراد اور مقامات کو شناخت کرنے، تمام حسیات کا تجزیہ کرنے اور ہر قسم کے اعمال و افعال کو بروئے کار لانے سے ہے۔

🔹سیمینٹک میموری کا تعلق مطالعہ، مشاہدہ، سماعت، بصارت اور حقائق کے تانے بانے سے ہے۔ مثلاً اس وقت جو یہ آرٹیکل آپ پڑھ رہے ہیں، اس کے کتنے نکات آپ کو سمجھ آرہے ہیں یا کس قدر حصہ آپ یاد رکھ پائیں گے۔ کمرہ امتحان میں آپ کو کیا کچھ یاد آئے گا اور کیا کچھ کوشش کے باوجود یاد نہیں آسکے گا۔ اس قسم کی میموری کے مراکز دماغ کے پری فرنٹل کارٹیکس اور ٹیمپورل کارٹیکس ہیں۔ یہ بھی اگلے دماغ کے سیریبرم کے حصے ہیں۔

🔹مخفی یاداشت Implicit Memory🔹
یہ بہت اہم قسم کی یاداشت ہے۔ بنیادی طور پر یہ غیر شعوری ہوتی ہے، جسے آپ کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زیادہ تر اس کا تعلق مہارتوں کے سیکھنے اور حرکاتِ منعکسہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً سائکل چلانے کی مہارت، سیڑھیاں چڑھنے کی مہارت، پیانو بجانے کی مہارت وغیرہ۔

مخفی یاداشت کی چار اقسام ہیں۔

1۔ پروسیجرل یاداشت Procedural Memory

انسانی عادتیں اور مہارتیں اسکی اہم مثالیں ہیں۔ کسی جانے پہچانے راستے پر چلتے ہوئے، مسجد کی طرف جاتے ہوئے، بائک چلاتے ہوئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہ افعال خود بخود سر زد ہو رہے ہوتے ہیں۔ مگر کسی نئی جگہ پر آپ بہت محتاط ہوتے ہیں اور سارا دھیان گردوپیش پر رکھتے ہیں۔ 
اس میموری کے دماغی مراکز تین ہیں۔ 
⁦▪️⁩سیریبیلم (cerebellum)، 
⁦▪️⁩موٹر کارٹیکس اور 
⁦▪️⁩بیسل گینگلیا (Basal Ganglia)۔

سیریبلم، دماغ کے عقب میں واقع دوسرا بڑا حصہ ہے جبکہ بیسل گینگلیا، دماغ کے اندرونی اہم حصے ہیں اور یاداشت کے علاوہ بہت سے دیگر افعال سے بھی وابستہ ہیں۔

2۔ پرائمنگ میموری Priming Memory

انسان ہر معاملے سے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے اور اسی تناظر میں ہر واقعے اور مشاہدے کو پرکھتا ہے۔ اس صلاحیت کو پرسیپشن perception بھی کہا جاتا ہے۔ پرائمنگ میموری کا تعلق اسی پرسیپشن سے ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان اپنے نظریات، تصورات اور ایقان و عقائد کا تعین کرتا ہے۔ اس میموری کا مرکز بھی نیوکارٹیکس ہے۔ یہ میموری بچپن میں ہوش سنبھالنے سے قبل ہی استوار ہو جاتی ہے اور پھر اس میں تغیر بہت مشکل سے ہی ہوتا ہے۔

3۔ ایسوسی ایٹِو لرننگ Associative Learning

سیکھنے کا وہ عمل جو کسی کنڈیشن سے مشروط ہو، ایسوسی ایٹِو لرننگ کہلاتا ہے۔ مثلاً جیسے بچوں کو لالچ یا مارپیٹ کے ذریعے کچھ سکھایا جاتا ہے۔ اس قسم کی لرننگ کی دو اقسام ہیں۔

⁦▪️⁩پہلی قسم میں انسان کی یاداشت کسی جذباتی واقعے سے منسلک ہوتی ہے۔ مثلاً شرمندگی، غم، غصہ، خوف، شدید حیرت، شدید مسرت ایسے واقعات ہیں کہ ان سے وابستہ ہر واقعہ ذہن پر تروتازہ رہتا ہے۔ جیساکہ وہ دن جب انسان کے والد یا والدہ کا انتقال ہوا یا پہلی بار اس نے اپنے ہونے والی دلہن کو دیکھا۔

اس میموری کا تعلق ایمگڈالا Amygdala سے ہے، جو کہ ہپوکیمپس کے ساتھ ملحقہ چھوٹا سا بیضوی جسم ہے۔ یہ خوف کے اثرات بہت تیزی سے قبول کرتا ہے اور اسے مستقل یاداشت کا حصہ بنا دیتا ہے۔ ہنری مولیسن کے ہپوکیمپس کے ساتھ اس کا ایمگڈالا بھی نکال دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس کی زندگی میں ڈر اور خوف کا کوئی گزر نہ رہا۔

⁦▪️⁩دوسری قسم کی ایسوسی ایٹِو لرننگ کا تعلق حرکیات، معمولات اور مہارتوں کے سیکھنے سے ہے۔ اس کا مرکز سیریبلم ہے۔ چونکہ ہنری مولیسن کے سیریبلم کو نہیں چھیڑا گیا، اسلئے اس میں مہارتوں کے سیکھنے کا عمل قائم رہا۔

4۔ نان ایسوسی ایٹِو لرننگ

اس میموری میں انسان اپنے معمولات، حساسیت اور حرکاتِ منعکسہ میں مہارت حاصل کرتا ہے۔ مثلاً نماز کی ادائیگی میں مختلف جسمانی حرکات، کرکٹ کے میدان میں بیٹنگ، باؤلنگ، فیلڈنگ وغیرہ۔ اس میموری میں انسان کے ریفلکس پاتھ ویز بن جاتے ہیں۔ جو انمٹ نقوش کی طرح قائم رہتے ہیں۔

یہ تو تھیں میموری کی اقسام اور دماغ میں اس کے ٹھکانے جو بے نشاں جزیروں کی مانند سربستہ راز ہی رہتے اگر ہنری مولیسن کی سرجری نہ ہوتی یا ہو کر بھی ناکام ہو جاتی۔

سن 2008 میں، اپنے آپریشن کے پورے 55 سال بعد ہنری کا انتقال ہو گیا۔ اس تمام عرصے میں ہنری کی شناخت دنیا سے اوجھل رکھی گئی اور میڈیکل لٹریچر میں بھی اسے ایچ ایم کے نک نیم سے لکھا اور پکارا گیا۔ 

یوں تو اس کی زندگی واقعات کا ایک طلسم کدہ ہے، مگر ایک واقعہ بہت حیرت انگیز، جس کی آج تک سائنس توجیح نہیں کر پائی۔

ایک شام، معمول کے مطابق اسے شام کی چائے کیلئے لان میں لایا گیا۔ لان میں ایک کرسی دیکھ کر اس نے کہا کہ آج بھی ایک ہی کرسی کیوں ہے؟ آج تو میری ماں نے مجھ سے ملنے آنا ہے، ان کی کرسی کہاں ہے؟ اسٹاف نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اس کی والدہ کے آنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے، اور وہ پھر کسی اور دن آجائیں گی، یا ہم انہیں ایک دو روز میں بلا لیں گے۔ مگر ہنری کسی صورت نہیں مانا۔ اس کا اصرار شدید سے شدید تر ہو گیا۔ یہ گذشتہ بیتے برسوں میں پہلی بار تھا کہ وہ اپنی ضد میں اس قدر شدید ہو گیا۔ ورنہ وہ تو ہر وقت مسکرانے والا نہایت ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا۔ ایسا انسان جس میں ضد، غصہ، نفرت، خوف کچھ بھی تو نہ تھا۔ مگر آج اتنی ضد کہ اس نے خود کو بچوں کی طرح زمین پر گرا لیا۔ بہرحال وہاں ایک اور کرسی رکھ دی گئی۔ 
۔۔۔۔۔۔اسی شام کے گہرے ہوتے اندھیروں میں اطلاع ملی کہ ہنری مولیسن کی والدہ آج شام انتقال کر گئیں۔۔۔

No comments:

Post a Comment